بالآخر ہمیں اس بات کی سمجھ آ گئی ہے اور ہم اپنی سمجھ پر رشک بھی کرنے لگے ہیں کہ حکومت کا دامن رشوت سے سراسر پاک ہے اور یہ کہ مخالفین بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ کچھ اس لیے بھی کہ یہ بات خادم اعلیٰ نے اسی ماہ میں دوسری بار کہی ہے۔ واقعی جہاں تک انگلی اٹھانے کا تعلق ہے تو یہ انگلی کا نہایت غلط استعمال ہے کیونکہ یہ تو خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کے لیے ہوتی ہے‘ یا کچھ لوگوں کو انگلیوں پر نچایا جاتا ہے‘ یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالا جاتا ہے جبکہ اس کا سب سے بہتر استعمال اس میں انگوٹھی پہننا ہے یا منگنی کے موقع پر منگیتر کو پہنانا ہے۔
رشوت کا بھی ہمارے ہاں سراسر ایک غلط تصور قائم ہو گیا ہے کیونکہ اگر کسی حکومتی افسر یا اہلکار کو جائز یا ناجائز کام کے لیے حق الخدمت کے طور پر برضا و رغبت کوئی رقم وغیرہ پیش کی جائے تو اُسے رشوت کیسے کہا جا سکتا ہے جبکہ رشوت تو وہ ہوتی ہے جو زبردستی وصول کی جائے یا پیسے لے کر اس کا کام نہ کیا جائے‘ جس صورت میں ضروری ہے کہ پیسے واپس کر دیئے جائیں‘ اور عام طور پر ایسا ہوتا بھی ہے کہ حسنِ اخلاق کا یہی تقاضا ہے؛ البتہ اگر وہ پیسے کسی نیک کام پر خرچ کیے جا چکے ہوں تو پیسے دینے والے کو درگزر سے کام لینا چاہیے کہ اس کا ثواب اُسے بھی برابر پہنچے گا۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہی پیسے کسی اور مناسب جگہ کام آ جائیں کیونکہ ان حضرات سے کام تو پڑتا ہی رہتا ہے۔
اور جہاں تک انگلی اٹھانے کا سوال ہے تو انگلی اٹھانے والے کو سب سے پہلے اپنی انگلی کی خیر منانی چاہیے کیونکہ جو رقم آپ کے ہاتھ سے ایک بار نکل جائے‘ اس کے بارے یہ سوچ کر صبر و ضبط سے کام لینا چاہیے کہ یہ آپ کی قسمت ہی میں نہیں تھی۔ بصورت دیگر آپ کے لیے کئی دیگر مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ جو افسر آپ کا کام سنوار سکتا ہے وہ آپ کی اس حرکت پر آپ کا کوئی اور کام بگاڑ بھی سکتا ہے اور آپ کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں یعنی آپ روزے بخشوانے جائیں اور نمازیں آپ کے گلے پڑ جائیں۔ اس لیے خواہ مخواہ پیسوں کی واپسی وغیرہ میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ زندہ قومیں وقت کی ہمیشہ قدر کرتی ہیں۔ امید ہے کہ آپ اچھی طرح سے سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمارا کام سمجھانا ہی ہے۔
حکومت سے ہماری تجویز ہے کہ جو لوگ کرپشن کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں‘ حکومت کو اس کا بھی نوٹس لیتے رہنا چاہیے‘ مثلاً آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ خود صدر مملکت کرپشن کے حوالے سے کل کس قدر واویلا کر رہے تھے؛ تاہم ہو سکتا ہے کہ اس موضوع پر خادم اعلیٰ کا مذکورہ بیان اُن کی نظر سے نہ گزرا ہو۔ اور تو اور‘ آج لاہور ہائیکورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ سڑکوں کی بجائے عوام کو بنیادی سہولتوں کی ضرورت ہے؛ حالانکہ اگر سڑکیں نہیں ہوں گی تو عوام بنیادی سہولتیں حاصل کرنے کے لیے کس پر چل کر آئیں گے بلکہ ان 12 نومولود بچوں کے جل کر مرنے کا بھی ذکر کیا گیا جو ایک مقامی ہسپتال میں آگ لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے اور اس بات کو نظرانداز کردیا گیا کہ ان کی تقدیر میں یہی لکھا تھا اور وہ کسی اور طریقہ سے مر ہی نہیں سکتے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے عوام تقدیر پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں۔ اور جہاں تک آئے دن کرپشن کے سکینڈلز کے منظر عام پر آنے کا تعلق ہے تو اسے انگلی اٹھانا نہیں کہہ سکتے کیونکہ حکومت ان کا سدباب بھی ساتھ ساتھ کرتی رہتی ہے جس کے مختلف طریقے ہیں جن میں سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ان کا نوٹس ہی نہ لیا جائے کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ ع
آوازِ سگاں کم نہ کُند رزقِ گدا را
اور حکومت یہ رویہ اس لیے بھی اختیار کرتی ہے کہ سکینڈلز طشت ازبام کرنے والے خود ہی حیا کریں اور اس کام سے باز آ جائیں کیونکہ حکومت پر ان کا کوئی اثر تو ہوتا ہی نہیں۔ اور دوسرا تیربہدف نسخہ یہ ہے کہ ایک تو جس نے یہ سکینڈل اچھالا ہو‘ اس کی کسی نہ کسی طور طبیعت درست کردی جائے۔ علاوہ ازیں اس سکینڈل میں جس ذمہ دار افسر کا نام آ رہا ہو‘ اُسے فوراً ترقی وغیرہ دے کر سکینڈل اچھالنے والے کو سبق سکھا دیا جائے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ افسر اور اہلکار کسی نہ کسی سکینڈل میں ملوث ہونے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ترقی وغیرہ پا سکیں‘ یا کسی پسندیدہ جگہ پر اپنی پوسٹنگ کروا سکیں۔ چنانچہ اس طور بھی ملک بھر میں رنگارنگ سکینڈلز کی بہار آئی رہتی ہے اور اس حوصلہ شکنی کی وجہ سے سکینڈلز کو کھود نکالنے والے یہ کام ہی شرمندہ ہو کر چھوڑتے نظر آتے ہیں۔
چنانچہ جہاں حکومتی افسر اور اہلکار خدمت کرنے اور کروانے میں مصروف رہتے ہیں اور معاشرے کی گاڑی پورے رسان سے چلتی رہتی ہے وہاں حکومت بڑی سطح کی خدمت میگا پروجیکٹس کے ذریعے سرانجام دینے میں لگی رہتی ہے... وہ موٹرویز ہوں‘ میٹرو بس یا سب ویز وغیرہ۔ بے شک بعض شرپسند اسے بھی کرپشن ہی میں شمار کرتے ہوں لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے‘ حکومت اسے کرپشن سمجھتی ہی نہیں‘ اس لیے اس کا دامن کرپشن سے پاک اور صاف ہے‘ کر لو جو کرنا!
آج کا مقطع
اس کی دیوار پہ لکھ آئیں غزل جا کے‘ ظفرؔ
آج کل کچھ اسے رغبت نہیں اخبار کے ساتھ