مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش
کی جا رہی ہے... سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘ اور ڈاکہ ڈالنے والوں کو اس بات کا ذرہ بھر احساس نہیں کہ یہ مینڈیٹ بھی کسی ایسی ہی واردات کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا جس کا کچہ چٹھہ آئے روز جوڈیشل کمیشن اور ٹربیونلز کے ذریعے کھل رہا ہے‘ اس لیے یہ حضرات براہ کرم ہاتھ ذرا ہولا ہی رکھیں کیونکہ چوروں کو مور پڑتے تو سنا تھا‘ لیکن اب یہ پریکٹس ختم ہونی چاہیے‘ جس طرح مجھے ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ ختم کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دوسروں کے حق میں فیصلہ آنے پر بین کرنا عمران خان کا وتیرہ ہے‘‘ اور ابھی دوسروں یعنی ہمارا بین جاری ہی تھا کہ حکم امتناعی ملنے کے بعد وہ قہقہوں میں تبدیل ہو گیا اور عمران خان کے بین شروع ہو گئے جبکہ ہمارے بین کرنے کی نوبت دوبارہ بھی آ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میرے چہرے پر عمران خان کی مانند جھوٹ‘ منافقت اور حسد کے داغ نہیں ہیں‘‘ بلکہ یہ داغ مختلف قسم کے ہیں اگرچہ وہ ذرا مزید خوفناک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان ہمیشہ جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں‘‘ حالانکہ یہ صرف ہمارا امتیاز ہے اور عمران خان کو ہماری نقل اتارنے کی بجائے کوئی اپنا انداز اختیار کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں عمران خان کے بیان پر ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
کرکٹ ڈپلومیسی یا سموک سکرین...؟
خلافِ معمول اور خلاف توقع بھارتی وزیراعظم کی طرف سے اچانک کرکٹ ڈپلومیسی شروع کرنے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے اعلان اور ارادے کو تازہ ہوا ہی کا ایک جھونکا قرار دینا چاہیے کہ بھارت کے ساتھ خواہ مخواہ کی مخالفانہ پالیسی ہمارے لیے کبھی مرغوب و مطلوب نہیں رہی۔ اس کے برعکس بعض انتہا پسند بھارتی سیاسی جماعتیں پاکستان دشمنی کا خصوصی امتیاز رکھتی ہیں جن میں خود وزیراعظم نریندر مودی کی اپنی پارٹی بھی شامل ہے ورنہ پاکستانی عوام کی طرح بھارتی عوام بھی دشمنی کی بجائے دوستی اور بھائی چارے میں یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس اقدام کا پاکستان چھوڑ‘ عالمی سطح پر بھی خیرمقدم کیا جا رہا ہے جبکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بھارتی حکومت نے اپنے دیگر پاکستانی مخالف پروگراموں کے ساتھ ساتھ اب پاک چائنا اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے لیے نہ صرف ایک شعبہ قائم کر دیا ہے بلکہ اس کے لیے فنڈز بھی فراہم کیے ہیں‘ اس لیے یہ نئی بھارتی پالیسی بھی شکوک و شبہات سے بالاتر نہیں ہو سکتی کہ بھارت اپنی مشہور زمانہ فطرت کے مطابق کرکٹ ڈپلومیسی کا ڈھول بھی بجاتا رہے اور اپنی بلوچستان حکمت عملی کے ساتھ ساتھ دیگر اقدامات بھی جاری رکھے اور اسے سموک سکرین کے طور پر اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کرتا رہے کیونکہ بظاہر اس اتنی بڑی کایا کلپ کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ رسولِ اکرمؐ کا قول ہے کہ اگر کوئی مجھے آ کر یہ کہے کہ فلاں پہاڑ نے سرک کر اپنی جگہ تبدیل کر لی ہے تو میں اسے مان لوں گا لیکن اگر کوئی آ کر مجھے یہ بتائے کہ فلاں شخص کی جبلت تبدیل ہو گئی ہے تو میں کبھی اسے نہیں مانوں گا۔ چنانچہ کیا یہ نیا بھارتی اقدام جبلت کی تبدیلی کی چغلی نہیں کھاتا؟ تاہم ہمیں اس سے خیر ہی کی امید رکھنی چاہیے کہ ہماری اپنی روایات کا تقاضا بھی یہی ہے!
پیپلز پارٹی کی تنظیمِ نو...؟
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے سینئر رہنمائوں سے مشورے کے بعد پارٹی میں تنظیم نو متعارف کرانے کا عزم ظاہر کیا ہے‘ جو بجا طور پر اس کے لیے ایک تریاق کی بھی حیثیت رکھتا ہے‘ لیکن بظاہر اس کا کوئی امکان مشکل ہی نظر آتا ہے کیونکہ زرداری بلاول تعلقات میں مبینہ کشیدگی اور دوری کے اسباب میں سے ایک یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ خود زرداری صاحب اپنی بعض مجبوریوں کے تحت اس پر تیار نہیں ہیں جبکہ ذوالفقار مرزا کی طرف سے پارٹی قیادت یعنی زرداری صاحب کے خلاف موجودہ بوچھاڑ اور یلغار نے پارٹی کے اندر ایک الگ ہیجان پیدا کر رکھا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زرداری صاحب نے اپنی جس ٹیم کے ذریعے اپنا پانچ سالہ اقتدار پورا کیا ہے‘ پارٹی کے جملہ عوارض کی وجہ بھی یہی حضرات ہیں جن کی کھلی بدعنوانیوں کی وجہ سے حالیہ انتخابات میں خصوصاً پنجاب میں پارٹی کا صفایا ہو کر رہ گیا‘ جبکہ یہ سب کچھ خود زرداری صاحب کی زیر سرپرستی ہی ہوتا رہا اور اب وہ ان لوگوں سے قطع تعلق کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ کم و بیش پنجاب میں تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کے خلا کو پُر کرنا شروع کردیا ہے اور اب اس میں اتنی دیر ہو چکی ہے کہ اب اس سلسلے میں شاید ہی کچھ ہو سکتا ہو ا ور جب تک ان پیرانِ تسمہ پا سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاتا‘ پارٹی کی تنظیم نو یا احیا کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔
کینیڈا سے عزیزم افضال نوید نے اپنی ڈھیر ساری مزید شاعری بھجوائی ہے جس میں سے قارئین کی دلچسپی کے یہ اشعار نکالے ہیں جو پیش خدمت ہیں:
معنی وا ہوتے ہیں‘ مصرع بھی رواں ہوتا ہے
پھر بھی جو چاہتا ہوں کب وہ بیاں ہوتا ہے
جو دھڑک سینے میں ہے دل سے نہیں وابستہ
مجھ کو معلوم نہیں شور کہاں ہوتا ہے
ڈھونڈتا رہتا ہوں ہستی کے کنارے سے لگا
وہ کنارا جو کراں تابہ کراں ہوتا ہے
پیاس بجھتی نہیں مٹی کی‘ وگرنہ سورج
تیری جانب ہی رواں آبِ رواں ہوتا ہے
میرے اشجار یہیں پر نظر آتے ہیں‘ نویدؔ
باغِ دنیا میں ہی جنت کا گماں ہوتا ہے
آج کا مقطع
یہ عشق وہ ہے کہ ہیں ناامید ہر دو فریق
اور‘ انتظار کسی کو‘ ظفرؔ‘ کسی کا نہیں