سابق کور کمانڈر اور عسکری دانشور لیفٹیننٹ جنرل حمید گل نے کہا ہے کہ فوج تھوڑی دیر کے لیے اقتدار سنبھال لے ورنہ سول وار ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکمرانوں کا کام بس چلانا نہیں ہے۔ اس سے پہلے غالباً کسی سابق جرنیل نے بھی اتنی سنجیدگی سے فوج کو مارشل لاء لگانے کا مشورہ نہیں دیا ہوگا۔ ملک میں عوام اور خود ملک کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے‘ اگر فوج کی آنکھیں کھلی ہیں تو اسے خود ہی نظر آنا چاہیے‘ اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیشک ملک کا کوئی بھی ہوشمند شخص اس حق میں نہیں ہوگا کہ ملک میں تھوڑے عرصے کے لیے بھی مارشل لاء لگایا جائے کیونکہ جو کام ہونا چاہئیں‘ اور جو نہیں ہونا چاہئیں‘ موجودہ حالات میں وہ مارشل لاء لگائے بغیر بھی ہو سکتے ہیں۔
مارشل لاء کا واضح مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ کُلی اختیارات فوج سنبھال لے۔ اس وقت جملہ اختیارات فوج کے پاس ہیں جو حکومت کی مجبوری‘ کمزوری یا منظوری ہی سے حاصل کیے گئے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نہ صرف سول حکمرانوں کے خلاف نفرت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے بلکہ اس کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے ایک نجات دہندہ کے طور پر بھی ان کی نظریں فوج ہی پر ہیں۔ حکومت کے خلاف انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ‘ کرپشن سکینڈلز ہی اس قدر منکشف ہو رہے ہیں کہ لوگ حیران ہیں کہ ابھی تک آسمان کیوں نہیں ٹوٹ پڑا اور قیامت کیوں نہیں آئی۔
قدیم یونان اور مصر میں تاجروں اور طوائفوں کو شہروں میں رہنے کی اجازت نہیں تھی بلکہ ان کی بستیاں شہر کے باہر بسائی جاتی تھیں؛ چنانچہ ہم نے اگر تاجروں کو اپنا حکمران بنا لیا ہے تو اس کے نتائج بھی بھگت رہے ہیں اور کسی دوسرے کو اس کا دوش بھی نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو خارجہ پالیسی پر اس کی گرفت ہونے کے سبب اس کے اختیارات صرف دہشت گردی کے خاتمے تک محدود نہیں ہیں کیونکہ خارجہ پالیسی کا دہشت گردی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس میگا کرپشن کا نوٹس لینا بھی فوج ہی کے اختیارات میں شامل ہے؛ چنانچہ اگر وہ ان اختیارات سے لطف اندوز ہو رہی ہے تو ان خاص خاص معاملات کی اسے اونر شپ بھی قبول کرنی چاہیے اور جو کچھ کراچی‘ بلکہ سارے ملک میں ہو رہا ہے‘ اس کے قلع قمع کے اختیارات پہلے ہی فوج کے پاس ہیں اور وہ مارشل لاء لگائے بغیر بھی اس ناسور کا علاج کر سکتی ہے۔
اس کے برعکس‘ موجودہ حکومت ان اختیارات سے دست برداری کو بھی ایک نعمتِ غیر مترقبہ کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور بالکل ہی بے سہارا اور مادر پدر آزاد ہو گئی ہے اور سمجھتی ہے کہ فوج کے منہ میں اختیارات کا جو لالی پاپ دے دیا گیا ہے وہ اس لوٹ کھسوٹ سے اس کی آنکھیں بند کرنے کے لیے کافی ہے اور وہ اپنے طور طریقوں کی کسی اصلاح یا تبدیلی کے بغیر ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ اپنے پسندیدہ راستے پر فراٹے بھرتی ہوئی چلی جا رہی ہے کیونکہ اُسے مارشل لاء کا ذرا سا خوف بھی ہو تو وہ اتنی بے خوفی کا مظاہرہ نہ کرے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ مفاہمتی پالیسی اپنانے کے ساتھ ساتھ وہ فوج کو بھی یہ میٹھی گولی دینے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ نہ صرف حکومت بلکہ اب تو عوام کا ایک طبقہ بھی اسی نتیجے پر پہنچا ہوا ہے۔
چنانچہ حق تو یہ ہے کہ وہ اس صورت حال میں ان معاملات کی اونر شپ قبول کرتے ہوئے انہیں درست کرنے کا تردد کرے‘ اور اگر ایسا نہیں کرتی تو یہ اختیارات حکومت کے متھے مارے اور ساری ذمہ داری اس پر ڈال کر اپنا وہ کام کرے جس کے لیے وہ قائم اور موجود ہے تاکہ کم از کم لوگوں کا اضطراب تو ختم ہو۔ انہی کالموں میں پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اگر فوج نیب اور ایف آئی اے ہی پر کنٹرول حاصل کر لے تو کرپشن کی اس لاعلاج بیماری سے خاطر خواہ شفا حاصل کی جا سکتی ہے‘ حالانکہ وہ اگر چاہے تو ایسی حکمت عملی بھی اختیارات کر سکتی ہے کہ لوٹ مار کے اربوں ڈالر جو بیرون ملکی بینکوں میں آرام فرما رہے ہیں واپس منگوا کر قوم کی بگڑی ہوئی تقدیر ہی بدل سکتی ہے ورنہ دفاعی اور خارجہ پالیسی وغیرہ سے لاتعلق ہو کر حکمرانوں کو کھلی چھٹی دے دے کہ وہ بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھائیں‘ اس کے ساتھ کاروبار کریں اور اس کے تابع مُہمل ہو کر رہ جائیں‘ جیسا کہ وہ چاہتے ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ ملک ادھار پر چل رہا ہے اور آئی ایم ایف کی شرطیں مانتے ہوئے آئے روز بجلی مہنگی کر کے اور اس پر طرح طرح کے سرچارج لگا کر عوام کا رہا سہا خون بھی نچوڑا جا رہا ہے۔ حکومت کا اپنا یعنی کاروباری طبقہ خود بھی ٹیکس دینے سے
انکاری ہے اور حکومت ان سے ٹیکس وصول کرنے کے موڈ اور پوزیشن میں بھی نہیں ہے اور یہ کمی عام لوگوں پر طرح طرح کے ٹیکس بڑھا کر پوری کی جا رہی ہے۔ ملک کا روپیہ تیزی سے باہر جا رہا ہے جبکہ ڈگری یافتہ باہنر افراد جن میں ڈاکٹرز بطور خاص شامل ہیں‘ ملک سے راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ لوگ خودکشیوں اور اپنے بیوی بچوں کو قتل کرنے پر مجبور ہیں اور حکومت ہے کہ فلاح و بہبود کے جھوٹے دعووں پر کروڑوں روپے اپنی تشہیری مہم پر خرچ کر رہی ہے جو اس ملک کے غریب عوام ہی کی جیب سے نکالے جائیں گے اور کسی ایسے بڑے منصوبے کو ہاتھ نہیں ڈال رہی جس میں سریے اور سیمنٹ کا استعمال ممکن نہ ہو۔ ہمارے دوست رئوف کلاسرا کے ایک کالم کا عنوان ہے ''یہ ٹھگ کون ہیں‘‘ حالانکہ بچے بچے کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ یہ ٹھگ کون ہیں اور ٹھگی کے ریکارڈز کیسے توڑے جا رہے ہیں۔ یہ مِتھ اب عام ہو چکی ہے کہ ملک پر حکومت فوج کی ہے اور اگر واقعی ایسا ہے تو یہاں وہاں اس کی رِٹ بھی نظر آنی چاہیے!
آج کا مطلع
کس جنگل میں کھوئے
اوئے ہوئے اوئے