وضاحت
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہذا ہر خاص و عام پر واضح کیا جاتا ہے کہ مشتہر نے جناب قاسم ضیاء کی گرفتاری کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا تو اس لئے کہ آٹھ کروڑ بھی کوئی رقم ہوتی ہے جس کے لئے ایک شریف آدمی کو پریشان کر دیا جائے جبکہ ہمارے دور میں تو ایک ادنیٰ کارکن بھی ایک ڈیل میں ایک آدھ کروڑ بنا لیا کرتا تھا۔ پھر یہ زیادہ شرمناک اس لئے بھی ہے کہ اس معاملے میں مسٹر عثمان بھی ان کے باقاعدہ شریک تھے۔ اس لئے قاسم ضیاء صاحب کے حصے میں تو دو چار کروڑ ہی آئے ہوں گے جبکہ اس کا بہتر حل یہ تھا کہ نیب والے خود ان دونوں کی خدمت میں حاضر ہوتے اور وہ پلی بارگیننگ کے ذریعے ایک دو کروڑ ان کے منہ پر مارتے۔ سو ایک معزز آدمی کے لئے اس سے زیادہ توہین آمیز بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسے دو چار کروڑ روپوں کی خاطر گرفتار کر لیا جائے کہ اتنی کم رقم تو اس کی شان ہی کے خلاف ہے۔ تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو۔
المشتہر: میاں منظور احمد خاں وٹو
اظہار افسوس
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا اس امر پر اظہار افسوس کیا جاتا ہے کہ جن 40 ہزار اساتذہ کو تین ماہ پہلے سرکاری سکولوں میں طلب کے مطابق بھرتی کیا گیا تھا‘ صرف تین ماہ کی تنخواہیں نہ ملنے پر وہ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ ملک سیلاب کے پانی میں ڈوب رہا ہے اور انہیں تنخواہوں کی پڑی ہوئی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ہماری قوم میں ایک دوسرے کے لیے اخوت اور ہمدردی کا جذبہ سراسر ختم ہی ہوتا جا رہا ہے جبکہ ان کی تنخواہیں دینے سے حکومت نے انکار کب کیا ہے اور صرف ان کی تعلیمی سندات کی تصدیق کی دیر ہے‘ جو اگلے پانچ چھ ماہ تک یقینا ہو جائے گی۔ اس کے بعد انہیں تنخواہیں دینے کی کوشش کی جائے گی بشرطیکہ اس وقت تک سیلاب کی صورتحال بہتر ہو جائے؛ البتہ یہ ٹیچر حضرات ان اسناد کی تصدیق کی فیس تیار رکھیں جس کے زیادہ ہونے پر بھی شور مچانے کی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے اور آدمی کو اتنا لالچی بھی نہیں ہونا چاہئے۔
المشتہر: محکمہ تعلیم
کرنے کا کام
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ ڈی سی او حضرات کی ہدایت کے مطابق یوم آزادی کے موقع پر اہم چوکوں میں ملی نغمے چلانے کی جو ہدایات کی گئی ہیں‘ ان پر پُرجوش طریقے سے عمل کیا جائے اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ کے خلاف احتجاج اور مظاہروں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے قومی حمیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یوم آزادی کا موقع حکومت کی خوش تدبیریوں ہی کے باعث آیا ہے ورنہ اب تک پتا نہیں کیا ہو چکا ہوتا‘ اس لیے اس مبارک موقع پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی درازی عمر کے لیے خصوصی دعائیں بھی مانگی جائیں‘ نیز یہ دعا لازمی طور پر مانگی جائے کہ فوج اور رینجرز کی طرف سے کراچی میں جو طوفان اٹھایا جا رہا ہے‘ یہ دونوں حضرات اس سے محفوظ رہیں بلکہ ان کے فرنٹ مینوں کو بھی گرم ہوا نہ لگے‘ جبکہ اسحاق ڈار صاحب کے لیے الگ سے ایک محکمہ دعا قائم کیا جا رہا ہے تاکہ وہ بھی پوری طرح محفوظ رہیں کیونکہ ان کی صورتحال سب سے زیادہ مخدوش ہے بلکہ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے الگ سے ملی نغمہ بھی تیار کیا جا رہا ہے جو دوسرے نغموں کے ساتھ چلایا جا سکے کیونکہ ڈار صاحب ہی وہ بنیادی اینٹ ہیں‘ جس کے سہارے حکومت کی عمارت کھڑی ہے۔
المشتہر: حکومت پنجاب عفی عنہ
ضروری ہدایات
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا واسا کے ان 16 ملازمین سے‘ جنہیں مالی بے ضابطگیوں کی وجہ سے سزائیں دی گئی ہیں اور ان سے ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے وصول کیے جانے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں‘ گزارش ہے کہ وہ دل بُرا نہ کریں کیونکہ محکماتی اپیل کر کے وہ اس سزا سے گلوخلاصی حاصل کر سکتے ہیں‘ کیونکہ حکومت جن چھوٹے ملازمین کو معطل وغیرہ کرتی ہے‘ وہ اس طریقے سے بحال ہو جاتے ہیں کیونکہ بڑے افسروں پر اب تک ہاتھ ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کیونکہ ایسا کرنے سے وہ ٹربیونلز وغیرہ کے دھکے کھاتے رہتے اور حکومت کا کام ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے‘ نیز ڈیڑھ لاکھ روپوں کی واپسی بھی کوئی ایسی مشکل چیز نہیں ہے جبکہ وہ بحال ہو کر ایسے کئی ڈیڑھ لاکھ پھر کما لیں گے جبکہ سزائوں کے اس عمل سے کم از کم یہ تو ثابت ہو ہی جائے گا کہ حکومت مالی بے ضابطگیاں برداشت نہیں کرتی؛ البتہ اوپر کی بات اور ہے کیونکہ اوپر تو انہیں مالی بے ضابطگیاں سمجھا ہی نہیں جاتا اور راوی ہمیشہ چین ہی لکھتا ہے۔
المشتہر: ناچیز حکومت پنجاب
الیاس بابر اعوان
آپ کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ ان کی شاعری کے کچھ نمونے حاضر ہیں۔
رخت گریز گام سے آگے کی بات ہے
دنیا فقط قیام سے آگے کی بات ہے
تُو راستے بچھا‘ نہ چراغوں کی لو تراش
یہ عشق اہتمام سے آگے کی بات ہے
ان پتھروں کے ساتھ کبھی رہ کے دیکھیے
یہ خامشی کلام سے آگے کی بات ہے
مجھے کہتا تھا چھوڑ دے مجھ کو
اور مرا ہاتھ چھوڑتا نہیں تھا
رکاوٹیں تو سفر کا جواز ہوتی ہیں
یہ راستہ کہیں ہموار ہو گیا تو پھر
وہ ماہتاب ہے‘ میں جھیل‘ اور سفر درپیش
وہ مجھ سے ہوتا ہوا پار ہو گیا تو پھر
میں رکھ کے جاتا ہوں کھڑکی میں کچھ گلاب کے پھول
کسی نے سایہ دیوار رکھا ہوتا ہے
یوں لگتا ہے رستے میں سب لٹ جائے گا
گھر پہنچوں گا تو کچھ سانسیں رہ جائیں گی
وہ تو دل تھا لیکن یہ تو باغ ہے یار
پیڑ پہ میرا نام تو لکھا رہنے دے
آج کا مقطع
وہ ابر اب بھی گرجتا ہے میرے سر میں ظفر
ابھی لہو میں وہ بجلی کہیں چمکتی ہے