محبی انتظار حسین نے اگلے روز اپنے کالم میں بھارتی شاعر بشیر بدرؔ کے اس دعوے کا نوٹس لیا‘ جس میں موصوف نے غالبؔ سے بڑا ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ غالب کے ہاں اعلیٰ درجے کے صرف 23 شعر دستیاب ہیں جبکہ وہ ایسے 63 اشعار کا مصنف ہے اور جو زبان زدِ عام و خاص بھی ہیں۔ یہاں معزز کالم نگار نے اسی رَو میں بشیر بدرؔ کے ساتھ‘ غالبؔ سے بڑا ہونے کے حوالے سے میرا نام بھی ٹانک دیا ہے حالانکہ میں نے محض اپنے دوست شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے بات کی تھی اور خود کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ خیر‘ اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔
بشیر بدرؔ نے چونکہ یہ دعویٰ خود باندھا ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس پر اعتبار نہ کیا جائے‘ اور اگر انتظار حسین ان مقبولِ عام اشعار سے واقف نہیں ہیں تو یہ قصور موصوف کا اپنا ہے‘ شاعر کا نہیں۔ یا صاحبِ موصوف کو چاہیے تھا کہ اس سلسلے میں عوام سے رجوع کرتے۔ میرے خیال میں ناصرؔ کاظمی کے بعد غالبؔ ہی وہ شاعر ہے جس کے حقوق کا انتظار حسین اتنا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ اصولی طور پر تو اپنے بارے اگر خود دعوے سے کوئی بات کہی جائے تو اُسے تسلیم کر لینا چاہیے۔ مثلاً انتظار حسین نے جب ''چھوٹی بڑی کہانیاں‘‘ کے عنوان سے اپنی کتاب شائع کروائی جس میں صرف اور صرف دیومالائی کہانیوں ہی کے ٹکڑے من و عن اور ہُوبہو نقل کر دیئے گئے تھے اور اس پر بطور مؤلف یا مرتب کے نہیں بلکہ باقاعدہ مصنف کے طور پر اپنا نام لکھوایا تھا تو خاکسار نے اس کا نوٹس ضرور لیا تھا جس پر جناب مسعود اشعر کا کہنا تھا کہ آپ نے تو انتظار حسین کو لاجواب کر دیا؛ تاہم اس کے بعد بھی اگر انتظار حسین نے تردید یا وضاحت کرنا ضروری نہ سمجھا تو ان کا یہ دعویٰ تسلیم کر لینا چاہیے کہ وہ بہرحال اپنے مؤقف پر قائم و دائم ہیں۔
میں نے کچھ عرصہ پہلے ''انتظار حسین کی سُوئی‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ میں نے جناب شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے جو بات کہی تھی‘ فاروقی صاحب نے اس کی تردید بھی کردی مگر انتظار حسین کی سُوئی وہیں پر اٹکی ہوئی ہے اور وہ یہ گڑا مردہ اکھاڑنے میں لگے رہتے ہیں جبکہ میری بات کچھ ایسی بے سروپا بھی نہیں تھی اور اس کے دستاویزی شواہد بھی موجود تھے۔ ایک تو میرے پاس جناب مشفق خواجہ کے لیٹر ہیڈ پر ان کے دستخطوں کے ساتھ لکھی گئی یہ عبارت موجود ہے کہ شمس الرحمن
فاروقی نے ایک ریڈیو ٹاک میں یہ کہا ہے کہ وہ ظفر اقبال کو غالبؔ سے بڑا شاعر سمجھتے ہیں لیکن وہ (مشفق خواجہ) اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ دہلی سے محمد صلاح الدین پرویز کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدے ''استعارہ‘‘ کے غالباً دوسرے شمارے میں کسی زینب علی کا مضمون شائع ہوا تھا جو شروع ہی اس جملے سے ہوتا ہے کہ کیسا زمانہ آ گیا ہے‘ ظفر اقبال کو غالبؔ سے بڑا شاعر قرار دیا جا رہا ہے اور یہ اُن دنوں کی بات ہے جب فاروقی اپنی تحریروں میں میری شاعری کی تعریف کے پُل باندھا کرتے تھے‘ حتیٰ کہ اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ''شعرِ شور انگیز‘‘ میں میرؔ کے ساتھ ساتھ میرے اشعار کا حوالہ بھی دیا کرتے۔ سو‘ رسالے میں جو نوٹس لیا گیا تھا تو ظاہر ہے کہ کسی بامعنی شخصیت نے یہ بات کہی ہوگی ورنہ کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی بات کو اہمیت ہی کون دیتا ہے۔ اب فاروقی خود ہی بتا سکتے ہیں کہ اتنی دلیرانہ بات اُن کے علاوہ اور کون کہہ سکتا تھا۔ اسی دوران میرے اور صاحبِ موصوف کے درمیان شکر رنجی پیدا ہوئی اور میری طرف سے اُن کے پرچے کا بائیکاٹ شروع ہوا جو کم و بیش دو سال تک جاری رہا اور خود سے منسوب بیان سے انہوں نے رجوع بھی اس کے بعد کیا جس کا انہیں پورا پورا حق پہنچتا تھا جبکہ اس دوران ''دنیا زاد‘‘ میں اسی موضوع پر انتظار حسین کے حوالے سے میرے مضامین بھی چھپتے رہے لیکن فاروقی ٹس سے مس نہ ہوئے لیکن کوئی سال بھر پہلے انتظار حسین ہی کے ایک کالم کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ میں نے کبھی ایسی بات نہیں کہی۔ میں یہ بھی لکھتا رہا ہوں کہ بالفرض اگر فاروقی نے یہ بات کہی بھی ہو تو یہ کوئی سند نہیں ہو سکتی اور نہ ہی میں اُن کے کہنے سے غالبؔ سے بڑا شاعر ہو سکتا ہوں‘ اور‘ میں اُتنا ہی رہوں گا جتنا کہ ہوں۔
علاوہ ازیں‘ یہ بات کچھ ایسی اہم بھی نہ تھی ورنہ ان سے لاہور اور جدہ وغیرہ میں ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن میں نے کبھی اُن سے اس بات کی تصدیق نہ چاہی‘ لیکن اس سب کچھ کے باوجود برادرم انتظار حسین نے اب بھی وہی ناقص ریکارڈ لگا رکھا ہے جس کی سوئی اسی ایک جملے پر اٹکی ہوئی ہے۔
میں نے جو بُرا بھلا لکھ رکھا ہے وہ میرا اپنا ہے۔ انتظار حسین نے جو کچھ لکھا ہے‘ زیادہ تر انہوں نے اپنی فکشن میں دیومالائوں ہی کا کچومر نکالا ہے۔ صاحبِ موصوف اردو میں کالم لکھ کر انگریزی اخبار (ڈان) کو بھیجتے ہیں جہاں وہ انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہوتا ہے اور آپ انگریزی زبان کے کالم نویس کہلاتے ہیں۔ اس خاکسار کو تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ میں تو ان کا ہمیشہ سے نیازمند ہوں اور آئندہ بھی رہوں گا‘ یعنی ع
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
مذکورہ بالا پُرانا اور ٹوٹا پھوٹا ریکارڈ وہ بے شک جب تک جی چاہے چلاتے اور بجاتے رہیں‘ چشمِ ماروشن‘ دلِ ماشاد۔
آج کا مطلع
شمار ہونا ہے یا بے شمار ہونا ہے
یہی ہمارا نہ ہونا ہزار ہونا ہے