"ZIC" (space) message & send to 7575

کاک ٹیل کالم

آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مجھے کہیں سے کوئی اچھا شعر ٹکر جائے تو میں آپ سے ضرور شیئر کرتا ہوں۔ پچھلے دنوں ایک ایسا ہی شعر جام پور (ڈی جی خان) سے شعیب زمان نے بھیجا؎
پیڑ ہے ایک الارم آنگن میں
شور ہونے پہ آنکھ کھلتی ہے
اب یہ میں شاید نہیں بتا سکتا کہ یہ شعر مجھے کیوں پسند آیا‘ نہ ہی میں یہ بتایا کرتا ہوں کیونکہ یہ ایک پیچیدہ اور مشکل کام ہے‘ نیز شعر کی چیرپھاڑ مجھے ویسے بھی اچھی نہیں لگتی۔ اسی طرح کشور ناہید کا یہ تازہ شعر بھی آپ کو ضرور سنانا چاہوں گا ؎
ساری بستی سوگوار تھی جب لفظوں کی موت ہوئی 
گور پڑا تھا کوئی اور‘ جنازہ میرے اندر تھا
اگرچہ اس نے کہہ رکھا ہے کہ وہ نظمیں ایک ہی جریدے کے لیے لکھتی ہیں‘ اس لیے ان کی کوئی نظم اخبار میں شائع نہ کی جائے‘ لیکن چونکہ یہ نظم نہیں بلکہ غزل کا شعر ہے اس لیے یہ پابندی اس پر لاگو نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہو تو خیر ہے کیونکہ میں تو اس کی ڈانٹ ڈپٹ کا ویسے بھی عادی ہو چکا ہوں‘ یعنی دیکھا جائے گا۔
کچھ عرصہ پہلے میں نے رخشندہ نوید کے شعری مجموعے کی صدارت کرتے ہوئے اس کے اس شعر کی بطور خاص تعریف کی تھی کہ ؎
میں پکڑتے پکڑتے ڈوب گئی
مُجھ سے کچھ گر پڑا تھا پانی میں
کہا تھا کہ ہمارا دوست شعیب بن عزیز اگر اپنے ایک شعر پر زندہ رہ سکتا ہے تو رخشندہ نوید کیوں نہیں‘ جس کا کچھ احباب نے برا منایا؛ حالانکہ میرا مطلب صرف یہ تھا کہ شعیب بن عزیز کو ایک ہی شعر نے زندہ جاوید کردیا ہے اور جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کے کریڈٹ پر ایک یہی شعر ہے جبکہ اسی غزل کا ایک بہت اعلیٰ شعر یہ بھی ہے ؎
دوستی کا کیا دعویٰ‘ عشق سے نہیں مطلب
ہم ترے فقیروں میں‘ ہم ترے غلاموں میں
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شعر اس قدر مشہور ہو جائے اور ضرب المثل بن جائے تو وہ شاعر کی پہچان اور شناختی کارڈ قرار پاتا ہے کہ اس کا یہ شعر آدھی دنیا کو ازبر ہے ؎ 
اب اُداس پھرتے ہو گرمیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
یعنی یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ کام کون سا اور کس طرح کا ہے۔
اسی طرح یہ شعر غلام محمد قاصر کی بھی شناخت بن گیا ؎ 
کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
لیکن اس کا مطلب بھی یہ نہیں کہ وہ بس ایک ہی شعر کا شاعر ہے جبکہ کشور ناہید کا ایک اور بہت خوبصورت شعر یاد آ رہا ہے ؎
کچھ اس قدر تھی گرمی بازار آرزو
دل جو خریدتا تھا اُسے دیکھتا نہ تھا
اور‘ میرا جو یہ شعر ؎
یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
تو اس کا مطلب بھی شاید یہ نہیں کہ میں ایک ہی شعر کا شاعر ہوں!
کافی دنوں کے بعد فارم ہائوس کا ایک دن کے لیے پھیرا لگا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا‘ سوائے اس کے کہ پھول بہت کم رہ گئے تھے‘ البتہ پیڑوں اور پرندوں نے مجھے پہچان لیا۔ پرندوں کے شور کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ میری آمد پر خوشی کا اظہار کررہے تھے یا دیر سے آنے کی شکایت‘ یا میرے آنے پر صرف احتجاج۔ آفتاب کے اصرار کے باوجود وہاں مستقل قیام کرنا میرے لیے مشکل ہوگیا ہے کہ آفتاب خود وہاں سے اکثر غیرحاضر رہتا ہے‘ کبھی اپنے شو کے سلسلے میں اورکبھی شکار کی مصروفیت۔ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے ملنے کے لیے دوستوں کا وہاں جانا ایک طرح سے جوئے شیر لانے کے برابر ہے جبکہ یہاں تو یہ خواتین و حضرات آتے ہی رہتے ہیں کہ ماڈل ٹائون شہر کے تقریباً درمیان ہی میں واقع ہے۔ پچھلے دنوں نوبیاہتا شاعر جوڑا عنبرین صلاح الدین اور سجاد بلوچ آئے تھے‘ جن کی تازہ شاعری کے نمونے کسی اگلی نشست میں پیش کروں گا۔
میرے بہی خواہوں اور بدخواہوں‘ دونوں کے لیے یہ خبر شاید دلچسپی کی حامل ہو کہ شاعر دلاور علی آزر نے ''ظفریاب‘‘ کے عنوان سے میری ایک سو ایک منتخب غزلیں شائع کردی ہیں جسے رومیل پبلی کیشنز راولپنڈی نے چھاپا ہے۔ اس کا دیباچہ کراچی سے نوجوان شاعر اور نقاد سرور جاوید اور فلیپ ہمارے دوست اصغر ندیم سید نے تحریر کیا ہے۔ بیشک یہ بہت عمدہ سفید کاغذ اور اعلیٰ گیٹ اپ کے ساتھ شائع کی گئی ہے لیکن اس کی 600 روپے قیمت بہت زیادہ ہے‘ جبکہ میرے کہنے پر ناشر اسے 300 روپے فی جلد بیچنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ ادھر ازلان شاہ کے جریدے ''نزول‘‘ کا کوئی ایک ہزار صفحات پر مشتمل ظفراقبال نمبر میری شاعری وشخصیت پر کتاب حال ہی میں شائع ہوگئی۔ ڈاکٹر سید عامر سہیل اسی موضوع پر کتاب الگ سے چھاپ رہے ہیں۔ اس خودنمائی کے لیے شرمندہ ہوں اور معذرت چاہتا ہوں۔ اور اب اوکاڑہ کے قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن کا کچھ تذکرہ جہاں بظاہر اپ سیٹ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہ سیٹ عارف چودھری کے نااہل قرار پانے پر خالی ہوئی تھی اور اب ن لیگ ہی کے ٹکٹ پر وہاں سے ان کے صاحبزادے علی عارف الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 53 فیصد امکان آزاد امیدوار ریاض الحق کی کامیابی کا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر پاکستان تحریک انصاف کے اشرف سوہنا ہیں اور ن لیگ کا امیدوار تیسرے نمبر پر ہے۔ اگرچہ یہ سیٹ ن لیگ ہی کی ہے لیکن ہوا اس کے خلاف چل پڑی ہے جس کی وجوہات بھی سمجھ میں آتی ہیں۔ ریاض الحق سیاست میں بالکل نئی انٹری ہے اور ان کی کامیابی بہت بڑا اور حیران کن اپ سیٹ ہوگا‘ جبکہ پیپلزپارٹی کے سجادالحسن بے چارے کسی شمار و قطار میں نہیں ہیں۔
آج کا مقطع
کچھ اختیار بھی رکھوں‘ ظفر‘ روانی پر
ہمیشہ اپنے کنارے بناتا رہتا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں