راہداری منصوبہ
پاک چین راہداری منصوبے پر پھیلا ہوا غبار چھٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ اگلے روز سینیٹ کے اجلاس میں اس پر اپوزیشن پارٹیوں کا شور و غل ثبوت کے لئے کافی ہے حتیٰ کہ مطمئن نہ ہونے پر اپوزیشن ارکان کو علامتی بائیکاٹ بھی کرنا پڑا جبکہ بزرگ اور انتہائی واجب احترام سینیٹر تاج حیدر نے اسے پاک چین راہداری منصوبے کی بجائے پنجاب چین راہداری منصوبہ قرار دیا۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی چوہدری احسن اقبال کی اس سلسلے میں تمام وضاحتیں بے کار گئیں اور کسی کو قائل نہ کر سکیں۔ آخر اس دوران موصوف نے راز کی بات بتا ہی دی۔ ارکان کا بڑا اعتراض یہی تھا کہ طے شدہ مغربی رُوٹ کو نظر انداز کر کے ساری ڈویلپمنٹ مشرقی روٹ پر کی جا رہی ہے، جس پر چوہدری صاحب کو بالآخر کہنا پڑا کہ ڈویلپمنٹ کے لیے روٹ اور علاقے منتخب کرنا چینی کمپنیوں کے اختیار میں ہے جس پر حکومت کوئی اختیار نہیں رکھتی جو کہ ایک سراسر بودی دلیل تھی کیونکہ اگر حکومت نے اپنی بے حسی ہی کا اظہار کرنا تھا تو دونوں کو متفقہ طور پر طے کیوں کیا گیا تھا جبکہ حکومت لاہور شہر کی ڈویلپمنٹ کے حوالے سے اپنی جانبداری پہلے ہی ثابت کر چکی ہے کہ صوبے کے مختلف پسماندہ علاقوں کے حصے کے فنڈز بھی لاہور میں جھونک دیے گئے، اس لیے حکومت کی کسی بات پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ہے اور یہی کچھ متعلقہ وزیر کے ساتھ ہوا بھی۔
اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ حکومت اپوزیشن کے تحفظات پر کان دھرے گی بلکہ اپنی ہٹ پر قائم، اس منصوبے پر کام کرتی رہے گی جبکہ تینوں صوبوں سے متعلقہ ارکان نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ موجودہ صورت میں اس منصوبے کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور شاید اس کا حشر بھی کالا باغ ڈیم جیسا ہی ہو کر رہے جبکہ حکومت ہر معاملے میں میرٹ، انصاف اور غیر جانبداری کی دھجیاں اڑانے کے سلسلے میں پہلے ہی انتہائی بدنام ہے اور آنکھیں بند کر کے وہ سارے کام کرتی چلی جا رہی ہے جو واضح طور پر متنازعہ اور مشکوک ہیں۔ اگرچہ اس منصوبے میں سب سے زیادہ فائدہ خود چین کا ہے اور یہ واقعی گیم چینجر بھی ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ حکومت کو بھی حاصل ہو گا لیکن کوئی عجب نہیں کہ اپنی ضد اور پھوہڑ پن کی وجہ سے وہ اس کریڈٹ سے بھی محروم ہو جائے کیونکہ دوسرے صوبوں کی مرضی کے بغیر اگر حکومت کچھ کر سکنے کی پوزیشن میں ہوتی تو کالا باغ ڈیم بھی بنا ڈالتی جو ملک کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔
گیس کا مسئلہ
صنعتی حلقوں میں اس پر گہری تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگلے چار ماہ میں صنعتی اداروں کو گیس سپلائی نہیں کی جا سکے گی جس کے جواب میں متعلقہ وزیر کا کہنا ہے کہ گیس گھریلو سپلائی کے لئے ہی بمشکل بچے گی۔ اس لئے صنعتی اداروں کو نہیں دی جا سکتی۔ اول تو گیس کی قلت کے معاملے پر بھی کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہو گا کیونکہ حکومت کے اپنے ادارے نیپرا کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت کے پاس بجلی موجود تھی لیکن اس کے باوجود لوڈشیڈنگ کا جانکاہ سلسلہ جاری رکھا گیا۔ دھاگے کی برآمد کے سلسلے میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کو برآمد ہونے والے دھاگے پر ڈیوٹی برائے نام یعنی تین فیصد کے قریب ہے جبکہ بھارتی ڈیوٹی 60 فیصد کے قریب ہے اور حکومت نے کبھی اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ کاٹن انڈسٹری بالخصوص شدید تنزل اور زوال کا شکار ہے حتیٰ کہ فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں اور صنعتکار اپنا مال مڈلی اٹھا کر بیرون ممالک کا رخ کر رہے ہیں اور یہ اس وقت ہو رہا ہے جبکہ حکومت خود اہل تجارت کی ہے جبکہ ''مرے پر سو دُرے‘‘ کے مصداق ان پر ود ہولڈنگ ٹیکس بھی ٹھونک دیا گیا ہے اور اس ساری بپتا کی اصل وجہ ٹیکس کی وصولی میں حکومت کی نا اہلی ہے یعنی ایک طرف وہ صنعتکاروں کے لیے مشکلات بھی پیدا کر رہی ہے تو دوسری طرف ان سے بڑے زمینداروں سمیت ٹیکس وصول کرنے سے بھی عاجز ے۔ دوسری بڑی بلکہ اصل وجہ حکومت کی طرف سے ملک کو قرضوں کی دلدل میں غرق کرنا ہے اور آئی ایم ایف کی ساری شرطیں مان کر یہ قرضے لیے جا رہے ہیں اور ان کی ادائی غریب عوام پر نت نئے ٹیکس لگا کر کی جا رہی ہے اور یہ احساس نہیں کر رہی کہ مستقبل میں ان قرضوں کے کیا کیا نتائج اس ملک اور قوم کو بھگتنا
پڑیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ اگلے دن ایک ٹی وی چینل پر بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ مہنگائی اب اپنی ریکارڈ کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جو کہ سراسر خلاف حقیقت ہے کہ اسی دن دودھ کی قیمت فی کلو میں پانچ اور دہی کی قیمت میں دس روپے اضافہ ہو چکا تھا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کا سارا کاروبار ہی جھوٹ پر چل رہا ہے۔ اربوں کے منصوبے آئے دن ناکام بھی ہو رہے ہیں جس کی بڑی وجہ کرپشن ہے جبکہ ایسے مخدوش منصوبے زور و شور سے لگائے بھی جا رہے ہیں جن کے لئے سونا اگلنے والی زرخیز زرعی زمین کی قربانی دی جا رہی ہے، ساہیوال کول پروجیکٹ جس کا منہ بولتا ثبوت ہے اور بالآخر جس کی ناکامی اور اہل علاقہ کی تباہی نوشتۂ تقدیر بن چکی ہے کیونکہ زرعی اراضی کا ستیا ناس ہونے کے علاوہ حکومت کے پاس اتنے ذرائع اور گاڑیاں بھی دستیاب نہیں ہیں جن کے ذریعے مطلوبہ کوئلہ دور دراز علاقوں سے لا کر وہاں پہنچایا جا سکے جبکہ ایسے منصوبے غیر آباد اور بنجر علاقوں میں ان جگہوں پر لگائے جاتے ہیں جہاں کوئلے کی رسد اس قدر مہنگی نہ پڑتی ہو۔ اول تو اگر یہ پروجیکٹ چل بھی پڑا تو اس کے دھوئیں اور کثافت سے اہل ساہیوال کی زندگیاں ویسے ہی اجیرن ہو جائیں گی کیونکہ خود چین میں انہی وجوہ کی بنا پر کئی پاور پراجیکٹس بند کئے جا چکے ہیں جو سیکڑوں افراد کی موت کا باعث بنے تھے۔ لیکن ساہیوال جیسی انتہائی نا مناسب جگہ کا انتخاب بجائے خود حکومت کی بے تدبیری کا مظہر ہے اور یہ علاقہ صرف اس لئے منتخب کیا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اس کا کریڈٹ لے سکیں تا ہم یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ انہیں اس کا کریڈٹ ملتا ہے یا ڈس کریڈٹ، اور ستم یہ ہے کہ کوئی انہیں سمجھانے والا نہیں ہے کیونکہ ساری کی ساری اہم جگہوں پر انہوں نے اپنے عزیز و اقارب بٹھا رکھے ہیں اور یہی دیکھا جاتا ہے کہ مالی یافت کہاں سے زیادہ ہوتی ہے، مشہور ہونے کا زیادہ چانس کہاں ملتا ہے، بیشک وہ بدنامی ہی کیوں نہ ثابت ہو، اور اس میں شک ہی کیا ہے کہ یہ سب کچھ ہماری ہی شامت اعمال کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا خود سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہور چوپو!
نمونے کا بیان
میں نے آئی ایس آئی سے پیسے نہیں لیے بلکہ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ میں کبھی یونس حبیب سے ملا تھا۔ اسی طرح یہ کیسے یاد ہو سکتا ہے کہ میں نے پیسے لیے تھے کیونکہ جیسے کہ میرے ایک وزیر نے کہا تھا کہ 35 لاکھ تو میرا ایک دن کا خرچہ ہے، اگر لیتا تو اپنی حیثیت کے مطابق لیتا، تا ہم اگر سب کے سب پیسے لے رہے تھے تو میں نے اگر لے بھی لیے تو کونسی قیامت آ گئی اور میں وہ رقم معہ سود ادا کرنے کے لئے تیار ہوں کیونکہ اس سے زیادہ آپ ایک وزیر اعظم کا کیا کر سکتے ہیں جبکہ یونس حبیب تو اپنے بیان سے ویسے بھی مُکر گیا تھا کیونکہ اگر نہ مکرتا تو اس بے چارے کے لیے رہائش کا مسئلہ پیدا ہو سکتا تھا کہ پھر اس نے رہنا کہاں تھا، ہیں جی؟ علاوہ ازیں 14سالہ گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے اب ہمیں مستقبل کی طرف دیکھنا چاہئے اور نیب کے شرکاء پر دبائو ڈالنے کی پالیسی ترک کر دینی چاہئے اور ایف آئی اے و نیب سمیت سب کے ساتھ مل جل کر کام کرنے اور ملک کی خدمت کو جاری رکھنے میں مشکلات حائل نہ کی جائیں، مہربانی ہو گی۔
آج کا مطلع
محبت سے مکر جانے کی گنجائش نہیں ہے
سو‘ لگتا ہے کہ گھر جانے کی گنجائش نہیں ہے