"ZIC" (space) message & send to 7575

ایک اور چھٹی

ایک بُری خبر ہے اور ایک اچھی۔ بُری تو یہ ہے کہ جب سے یہاں آیا ہوں ممولہ اور ممولی، دونوں غائب ہیں۔ یا تو انہیں میرے آنے کا پتا نہیں چلا، یا چل گیا ہے۔ اور اچھی خبر یہ ہے کہ سٹرس کے پھلوں نے رنگ پکڑنا شروع کر دیا ہے۔ پتوں کے سبز پس منظر میں نارنجی اور سُرخی مائل پھل جنت نگاہ سے کسی طور کم نہیں۔ آفتاب نے کالم لکھتے ہوئے ابھی پوچھا تھا کہ نوازشریف کا طرزِ حکمرانی ٹھیک ہے یا نوازشریف کی طرزِ حکمرانی؟ میں نے جواب دیا کہ دونوں غلط ہیں کیونکہ اگر طرزِ حکمرانی ہی صحیح نہیں تو ''کا‘‘ اور ''کی‘‘ سے کیا فرق پڑتا ہے۔ 
میں نے پوچھا کہ وہاں گھر میں پڑے پڑے اور بیٹھے بیٹھے وزن بڑھ گیا ہے، کیا کروں، تو بتایا کہ غذا کم کر دیں۔ سو، اس طرح کیا ہے کہ صبح ناشتے میں بران بریڈ کا ایک سنکا ہوا سلائس، ایک (دیسی) انڈا ہاف فرائیڈ اور ایک کپ چائے۔ دو اڑھائی گھنٹے بعد کوئی پھل مثلاً ایک درمیانے سائز کا امرود، دوپہر کو پھر وہی ایک سلائس اور تھوڑا سا سالن، سہ پہر کو اک کپ کافی اور رات کو وہی دوپہر جیسا کھانا۔ پچھلے ایک کالم کے حوالے سے ایک چاہنے والے ڈاکٹر ہُما نے مردان سے میسج کیا کہ یہ تو ذاتی اور خاندانی سا کالم ہے، نیز اس شعر کے بارے یعنی... ؎ 
اور کیا چاہئے کہ اب بھی ظفرؔ
بھوک لگتی ہے، نیند آتی ہے 
کہا کہ کیا زندگی محض کھانے اور سونے ہی کا نام ہے؟ سو عرض 
ہے کہ میں کالم میں ذاتی حوالے اس لئے بھی دیتا ہوں کہ ایک تو میری ذات سے دلچسپی رکھنے والوں کو میری خوبیوں (اگر وہ کوئی ہیں) کے ساتھ ساتھ میری خامیوں، کمزوریوں اور کمینگیوں سے بھی آگاہی رہے اور دوسرے یہ کہ ایسے کالم میری خودنوشت کا حصہ بھی ہیں جو اپنی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ 
تین دن کی واک سے کھلیاں پڑ گئی تھیں، اس لئے میں نے اسے ذرا بڑھا دیا کہ یہ واک سے پیدا ہوئی ہیں تو واک ہی سے دُور بھی ہوں گی۔ تاہم آفتاب نے کہا کہ فی الحال صرف ایک ہزار قدموں تک ہی محدود رہیں۔ صورت یہ ہوئی ہے کہ ایک ہاتھ میں سٹک ہوتی اور دوسرا ہاتھ ملازم نے پکڑا ہوتا تھا۔ لیکن میں نے سوچا کہ اگر واک کے بعد بھی یہی عالم رہا تو واک کا فائدہ ہی کیا ہوا؛ چنانچہ میں نے اب ملازم کا ہاتھ چھوڑ کر صرف سٹک کے سہارے چلنا شروع کر دیا ہے۔ معمول یہ ہے کہ واک کے بعد تنفس کی ایکسرسائز کرتا ہوں جو چند سال پہلے جب وہ پاکستان آئے تھے تو میرے شاعر دوست افضل نوید نے بتائی تھی۔ آج یاد آیا کہ بھلے دنوں میں بازوؤں کی ایکسرسائز کے ساتھ بیس پچیس بیٹھکیں بھی نکالا کرتا تھا۔ سو، آج وہ دونوںکام بھی کئے یعنی بازوؤں کی ورزش کے بعد کرسی کی پُشت پر ہاتھ رکھ کر پہلے دن بیس 
بیٹھکیں بھی نکالیں۔ ہاں، یاد آیا کہ ڈاکٹر ہُما کے دوسرے سوال کا جواب یہ تھا کہ جب آپ میری عمر کو پہنچیں گے تو آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اس وقت دوائیں اور گولیاں کھائے بغیر نہ نیند آتی ہے اور نہ بُھوک لگتی ہے۔ سو شعر میں اگر'' اب بھی‘‘ پر ذرا غور کر لیتے تو شاید آپ کو اپنے سوال کا جواب خود ہی مل جاتا۔ 
میں شروع ہی سے تیز چلنے کا عادی ہوں، بلکہ کافی فاصلے تک بھی۔ ایک بار میرے دوست زبیر رانا اور میں جب ایک ہی اخبار میں لکھتے تھے، جبکہ کبھی کبھار میرا بھی دفتر کا چکر لگ جاتا تھا، ایک دن شام کے وقت میں واپس آنے لگا تو زبیر رانا بولے، چلیے اکٹھے چلتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ پیدل چلنا ہو گا۔ لیکن جب ہم نے ڈیوس روڈ سے ابھی ایک ہی میل کا فاصلہ طے کیا تھا کہ موصوف تھک کر رُک گئے کہ اب آگے پیدل نہیں چلا جاتا۔ بعد میں انہوں نے ہماری محبوب شاعرہ نسرین انجم بھٹی سے شادی کر لی تھی اور اب انہیں مرحوم ہوئے بھی کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ 
جُنید کو بتایا تو اس نے بھی کہا کہ سہارے کے بغیر چلنا رسک سے خالی نہیں ہے لیکن میرا جواب یہی تھا کہ رسک کے بغیر کیا زندگی ہے کیونکہ اگر کچھ بھی ہونا ہے تو وہ رسک لئے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً اگر میں شاعری ہی میں رسک نہ لیتا تو صورتِ حال بہت مختلف ہوتی۔ مُحبی عباس تابش اگلے روز فون پر یاد دلا رہے تھے کہ ہم 80ء کی دہائی کے سارے شاعر آپ اور صرف آپ ہی سے متاثر تھے بلکہ کہہ رہے تھے کہ میری تو شاعری ہی اوکاڑہ سے شروع ہوتی ہے۔ اسی میں ایک لطیفہ یہ بھی ہے اور جس کا ذکر پہلے بھی کہیں کر چکا ہوں کہ جس زمانے میں وہ گورنمنٹ کالج میں پڑھاتے تھے، وہاں ایک مشاعرہ میری صدارت میں منعقد ہوا۔ جب موصوف کی باری آئی تو غزل سنانے سے پہلے مختصر تقریر بھی کی اور بتایا کہ جب ''آبِ رواں‘‘ چھپی تو کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا جب میں اس کتاب کو دو دفعہ نہیں پڑھ لیتا تھا۔ اپنی باری آنے پر میں نے کہا کہ عباس تابش اگر میری شاعری پڑھ کر اتنے عُمدہ شاعر ہو گئے ہیں تو میرا خیال ہے کہ مجھے بھی اپنی شاعری پڑھنی چاہئے! 
ہمارے دوست ڈاکٹر اختر شمار نے، جو ایف سی کالج میں شعبہ اُردو کے سربراہ بھی ہیں، اپنا پرچہ ''بجنگ آمد‘‘ ارسال کیا ہے جس میں اپنے کالم میں انہوں نے سارا زور کلام عیب جوئی کے خلاف لکھنے پر صرف کیا ہے۔ اس میں پیغام شاید میرے لئے بھی تھا لیکن واضح رہے کہ کسی تحریر میں عیب جوئی کوئی گناہ عظیم نہیں ہے۔ غلطیاں ہم سب کرتے ہیں کہ یہ تقاضائے بشریت ہے۔ غلطی کی نشاندہی نہیں کریں گے تو غلطی کرنے والے کو اس کا پتا اور احساس کس طرح ہو گا اور پھر وہ اس کی اصلاح کب کرے گا کیونکہ غلطی اگر موجود رہے تو اس سے دوسرے بھی گمراہ ہو سکتے ہیں۔ میری غلطی کی کوئی نشاندہی کرے تو میں تو اُسے اپنا مُحسن سمجھتا ہوں۔ لیکن اگر اس کام سے اجتناب اس لئے کیا جائے کہ جواب میں کوئی آپ کی عیب جوئی بھی کرے گا تو یہ بھی کوئی مستحسن رویہ نہیں ہے۔ 
البتہ کسی کے کردار پر حملہ کرنا یقیناً قابل مذمت ہے۔ تاہم عیب جوئی اور کردار کشی میں جو باریک سا فرق ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ''بجنگ آمد‘‘ پرچہ واقعی قابل داد ہے۔ میرا خیال ہے کہ اردو میں کوئی ایسا دلچسپ ہفتہ وار شائع نہیں ہو رہا جس میں ادبی مضامین، انٹرویو، ادبی خبریں اور سب کچھ ہو، شرارتوں سمیت۔ مجھے یہ پہلی بار موصول ہُوا ہے تاہم پتا چل رہا ہے کہ اس کے کئی سابقہ شماروں میں اس خاکسار پر بھی خصوصی توجہ مبذول کی گئی ہے۔ (بیحد شکریہ!!) 
آج کا مقطع
کئی زمانوں سے وہ بھی نہیں رہا ہے، ظفرؔ
جو اپنے ہاتھ میں تھوڑا بہت ہنر کوئی تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں