"ZIC" (space) message & send to 7575

’’دیار آئینہ‘‘ علی اکبر عباس کا تازہ مجموعہ غزل

ہمارے سینئر شاعر علی اکبر عباس کا تازہ مجموعہ ''دیار آئینہ‘‘ کے نام سے اسحقٰ ٹریڈرز‘ سٹیشنرز اینڈ بُک سیلرز اسلام آباد نے چھاپا ہے اور اس کی قیمت 200 روپے رکھی ہے۔ ٹائٹل اشتیاق احمد نے بنایا ہے جبکہ انتساب انہوں نے اپنے بڑے بھائی نذیر ناجی کے نام کیا ہے۔ ایک صفحے کا دیباچہ شاعر نے خود لکھا ہے۔ اس سے پہلے ''برآب نیل‘‘ ''درنگاہ سے‘‘ ''چار دن‘‘ اور ''رچنا‘‘ کے نام سے شاعری کے مجموعے شائع ہو کر ارباب فن سے داد وصول کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بلھے شاہ کا کلام شاہ عبداللطیف بھٹائی ایوارڈاور زبور عجم کا فارسی سے منظوم پنجابی ترجمہ۔زیر ترتیب مجموعوں میں ''گنا گیان گرہ ‘(گیت)‘ ''پارہ شب‘‘ (نظمیں) ''سانول بار ‘‘(پنجابی مجموعہ) اور مجموعۂ مضامین زیر ترتیب ہیں۔ کتاب کے آخر میں ان کے دوست بختیار احمد کا خط شائع کیا گیا ہے جس میں ان کے کلام کی تحسین کی گئی ہے۔ ان غزلوں کی تعریف کر کے میں سورج کو چراغ دکھانا نہیں چاہتا کیونکہ مُشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطّار بگوید۔ اس خوبصورت مجموعہ میں سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں :
شب ِغبار ستارے کہاں سے لائے گی
کہ اس غریب کو جگنو بھی دستیاب نہیں
جو درون خانہ جلا نہیں
وہ چراغ برسربام ہے
سبھی کو بھولے ہوئے کام یاد آنے لگے
ہمارے ساتھ کوئی دو قدم چلا بھی نہیں
ثواب کیا کوئی اپنے حساب میں نکلے
یہ عشق تھا‘ سو اسے ڈھنگ سے کیا بھی نہیں
اس لیے عدل کی زنجیر کو تالے پڑے ہیں
حاکم وقت کو خود جان کے لالے پڑے ہیں
مجھ سے تُو بولتا چلا جاتا
اور میں تجھ کو دیکھتا چُپ چاپ
تجھ پہ مر مٹنے کو جی چاہتا ہے
اک نظر ہم تجھے کیا دیکھ آئے
جنہیں ہے ڈوبنا اُن کو ترے کنارے سے کیا
فریب کھانا ہے رہبر سے کیا‘ ستارے سے کیا
خوش رہنے کے طور طریقے سیکھے
لیکن آ جاتی ہے یاد تمہاری
آنکھوں سے نکلا اک رستہ دل میں اتر گیا
پہروں پھرتا یار مسافر پل میں ٹھہر گیا
غبار نورہے یا کہکشاں ہے یا کچھ اور
یہ میرے چاروں طرف آسماں ہے یا کچھ اور
سوچا تھا کئی بار کہ کچھ کر کے دکھائیں
ہو جاتا ہے ہر بار کوئی اور تماشا
کوئی کر سکتا نہیں خواہش پرواز اسیر
قید ہوتے ہیں تو آواز کے پر کھولتے ہیں
کچھ ارادوں کو بھی سامانِ سفر کی صورت
شام کو باندھتے ہیںاور سحر کھولتے ہیں
نکل گئی تیزی سے آگے
کیا تھا ایک سوال ہوا سے
ہم دو قدم سے ماپنے نکلے تو یہ کھلا
اس راہ میں زمیں ہی نہیں آسماں بھی ہے
سب فاصلے سمیٹ لیے دوربین سے
دیکھا جو غور سے ‘جو وہاں ہے یہاں بھی ہے
ہم نے آئندہ کی خاطر جو پس انداز کیا
بس وہ آئندہ کی خاطرہی پس انداز رہا
تیور ہی اپنی تیزروی کے عجیب تھے
اک بار جو ملا وہ دوبارہ نہیں ملا
عمر جب جا چکی تو جا کے کھلا
کام ہے ایک عمر کا ابھی اور
شاعری میں تجربہ ہمیشہ ہی سے مستحسن رہا ہے۔ مجموعہ رچنا میں جو پنجابی الفاظ کے انبار لگا دیئے گئے تھے‘ وہ بھی ایک تجربہ ہیں۔ اس تجربے کی مثال اس مجموعے میں ہمیں نظر آتی ہے اور وہ ہے ایک ہی غزل میں دو بحروں کا استعمال مثلاً صفحہ 67 پر درج غزل کے پہلے دو شعر دیکھیے :
چاند محور سے اگر جائے نکل
رات بھی لے گی اپنا روپ بدل
اس طفیلی سی روشنی سے نجات
ہو جو حاصل تو اندھیرے میں چل
جیسا کہ ظاہر ہے ‘یہ شعر مختلف بحروں میں کہے گئے ہیں۔ مثلاًشعرکا پہلا مصرعہ ایک بحر میں ہے تو دوسرا ایک اور بحر میں‘ جو کہ دونوں غالب کی مشہور بحروں میں سے ہیں یعنی پہلا مصرعہ غالب کی اس بحر میں ہے جس کا مطلع ہے ؎ 
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تیری شہرت ہی سہی
جبکہ شعرکا دوسرا مصرعہ یعنی ‘ہو جو حاصل تو اندھیرے میں چل ‘ غالب کی ایک اور غزل کی بحر میں چلا گیا ہے یعنی
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
اسی طرح دوسرے شعر کا پہلا مصرعہ ایک بحر میںہے تو دوسرا‘ دوسری بحر میں یعنی‘ عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی والی بحر میں‘ جبکہ باقی ساری غزل اسی بحر میں ہے یعنی عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی۔
تاہم‘ ان دو شعر وں کے علاوہ اس تجربے کو کتاب میں بروئے کار نہیں لایا گیا اور آئندگان کے لیے یہی دو شعر کافی سمجھے گئے ہیں کہ اگر وہ یہ تجربہ کرنا چاہیں تو اس سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی دیگ میں سے ایک دانہ نکال کر چکھنے سے ہی اس کے ذائقے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ایک سینئر بھارتی شاعر ندا فاضلی کے ہاں بھی یہ کاوش نظر آتی ہے جن کی کتاب پر رائے دیتے وقت میں نے لکھا تھا کہ بعض اوقات ان کی غزل کے شعر کا مصرعہ مٹر گشت کرتا ہوا دوسری بحر میں نکل جاتا ہے اور مصرعوں کے اس سیرسپاٹے پر مجھے کوئی اعتراض بھی نہیں ہے کہ ویسے بھی یہ شعر کی آزادی کے خلاف ہے اور شعراء کو مصرعے جس طرف جا رہے ہوں ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہونا چاہیے۔ سو‘ یہ تجربہ بھارت سے یہاں تک اگر آ گیا ہے تو اسے آگے بھی چلنا چاہیے ع
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
آج کا مطلع
عام سا ایک گمان مثالی لگ سکتا ہے
بھرا ہوا برتن بھی خالی لگ سکتا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں