"ZIC" (space) message & send to 7575

دُھوپ‘ ہوا‘ چڑیاں‘ عباس تابش اور کشور ناہید

حسبِ معمول دس بجے واک کے لیے نکلا ہوں تو باہر دُھوپ بھی تھی اور تیز ہوا بھی۔ دونوں کا کمبی نیشن خوب لگا کہ ہوا دھوپ کی تپش کو روکتی تھی تو دھوپ ہوا کی ٹھنڈک کو۔ویسے دونوں کے الگ الگ کرشمے ہیں کہ گرمیوں میں سایہ اور ہوا اپنا رنگ جماتے ہیں تو سردیوں میں دھوپ۔ اگرچہ بعض اوقات معاملہ الٹ بھی ہو جاتا ہے کہ مثلاً ہمارے دوست اور شاعر ناصر شہزاد کے حوالے سے کسی ستم ظریف نے یہ جملہ کہا تھا کہ ناصر کاظمی اور شہزاد احمد جب الگ الگ شعر کہتے ہیں تو خوب ہوتے ہیں لیکن جب یہ کام مل کر کرتے ہیں تو گڑبڑ ہو جاتی ہے!
آج جو چڑیاں شیشے پر ٹھونگے مارتی رہی ہیں‘ یہ عام چڑیاں نہیں ہیں بلکہ عام سے کسی قدر بڑی اور تلیئر سے قدرے چھوٹی۔ انہیں شاید جنگلی چڑیاں بھی کہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے اوکاڑہ میں چراغ نامی ایک شکاری جو میں نے رکھا ہوا تھا وہ تیتر‘ بٹیر کے ساتھ ایسی چڑیاں بھی لایا کرتا تھا۔ عام طور پر جھنڈ کی شکل میں ہوتی ہیں اور سیہڑ کی طرح شور بہت مچاتی ہیں۔ سیہڑ اسی شکل و صورت کا پرندہ ہے جو تیتر سے چھوٹا بلکہ بٹیر سے بھی چھوٹا اور اس جنگلی چڑیا سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کا شکار زیادہ رغبت سے نہیں کھایا جاتا‘ تاہم یہ پرندہ شورشرابہ کھیت اور فرش پر کرتا ہے تو تلیئر یہ فریضہ درختوں پر ہی سرانجام دیتا ہے جو بالعموم پیپل اور برگد ہوتے ہیں ‘جن کے پھل سے یہ پیٹ پوجا بھی کرتا ہے ۔یہ دو طرح کے ہوتے ہیں‘ سیاہ اور تقریباً نسواری رنگ کے‘ جسے برائون بھی کہا جا سکتا ہے ‘جبکہ اس کا سینہ ہلکے برائون رنگ کا ہوتا ہے۔ ان کی ایک دوسری خصوصیت یہ ہے کہ بیسیوں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں پرا باندھ کر اڑتے ہیں اور اڑتے ہوئوں کا شکار کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ کسی دیوار ‘تار یا درخت پر یہ بیٹھتے بھی اکٹھے ہیں۔
ہمارے ساتھ والے پلاٹ میں بھی گھر بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں جس کے لیے سب سے پہلے ایک کنواں کھودا گیا ہے جہاں سے موٹر لگا کر پانی نکالا جائے گا ۔ کچھ روز میں اینٹیں وغیرہ بھی آنا شروع ہو جائیں گی اور اس طرح ہماری ہمسائیگی آباد ہو جائے گی۔ کنواں کھدتے دیکھ کر نہ جانے کیوں مجھے محمد خالد اختر کا افسانہ کاریز یاد آ گیا ہے‘ جسے کھودنے والے دونوں مزدور ایک ہی خاتون پر عاشق ہونے کے حوالے سے ایک دوسرے کے رقیب بھی ہوتے ہیں۔ کنواں تقریباً مکمل ہو چکا ہوتا ہے۔ ان کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ ایک مزدور رسے کی مدد سے نیچے اُتر کر مٹی کھودتا اور بالٹی میں بھرتا ہے‘ جسے دوسرا رسے کی مدد سے اوپر کھینچتا ہے اور اس روز کا کام ختم ہونے پر اوپر والا مزدور نیچے والے کو اوپر کھینچ لیتا ہے۔ آخر ایک روز جب ایک مزدور کام ختم کر کے اوپر والے مزدور سے اسے اوپر کھینچنے کے لیے آواز دیتا ہے تو وہ اسے اوپر لانے کی بجائے رسہ نیچے پھینک دیتا ہے!
محمد خالد ایک بڑا فکشن رائٹر تھا جسے ابھی پوری طرح دریافت نہیں کیا جا سکا‘ اشفاق احمد نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ ہم سب ختم ہو جائیں گے لیکن محمد خالد اختر باقی رہے گا۔ وہ میری اہلیہ کا کزن بھی تھا بلکہ محمد خالد اختر کے بھائی وارث کے ساتھ اس کی شادی ہونے کی بات بھی چلی لیکن بیچ میں ہی رہ گئی اور دونوں خاندانوں کے حالات پہلے جیسے نہ رہے‘ تاہم جن دنوں میں رسالہ ''سویرا‘‘ کا (ایک پرچے کا) ایڈیٹر تھا تو وہ ہمارے گھر بھی آیا تھا۔ اس کی عادت تھی کہ اگر کہیں اس کا رشتہ طے ہونے لگتا تو وہاں جا کر اور طرح طرح کی باتیں بنا کر انہیں بدگمان کر دیتا اور معاملہ آگے نہ بڑھتا۔ پھر یہ لطیفہ بھی ہوا کہ اس کی شادی ہو ہی گئی۔ جب نکاح ہو گیا تو دونوں فریقوں کے درمیان ایسا جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا کہ ان کے والد مولوی اختر علی ‘جو نواب بہاولپور کے اہم عہدیدار تھے اور بعد میں قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے ‘ بارات دلہن کے بغیر ہی واپس لے آئے۔ موصوف کوئی آدھی رات کے وقت خود سسرال جا پہنچے اور دلہن کو گھر لے آئے۔
یہ افسوسناک خبر آپ کی نظر سے گزر چکی ہو گی کہ ہمارے دوست اور صاحب ِطرز شاعر عباس تابش کے اعزاز میں اجمیر شریف میں منعقد ہونے والا مشاعرہ وہاں کی بدنام زمانہ متعصب تنظیم شیوسینا کی دھمکیوں کے پیش نظر منسوخ کرنا پڑا۔ اّول تو مشاعرے کے منتظمین کو وہاں کے معروف اور معلوم حالات کے پیش نظر اس تقریب کا اہتمام نہیں کرنا چاہیے تھا ‘اور اگر کر بھی دیا تھا تو تابش کو وہاں جانا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ راحت علی خاں سمیت متعدد پاکستانی فنکاروں کے ساتھ پہلے ایسی بدسلوکی ہو چکی تھی۔ نئی دہلی سے ''ریختہ‘‘ والوں نے مجھے اپنی تقریب کی صدارت کے لیے بلایا تھا جو اسی مہینے منعقد ہونا تھی لیکن میں نے معذرت کر دی تھی ‘حالانکہ ان کا کہنا تھا کہ نئی دہلی میں حالات ایسے نہیں ہیں۔ پچھلے دنوں جب برادرم شمس الرحمن فاروقی آئے اور ان سے ذکر ہوا تو انہوں نے بھی کہا کہ آپ کو وہاں ہو آنا چاہیے‘ آفتاب نے بھی گرین سگنل دے دیا تھا لیکن میں ہامی بھرنے کے باوجود اپنے آپ کو آمادہ نہ کر سکا جبکہ اپنی صحت کے معاملات کی وجہ سے بھی میں ہمت نہ کر سکا۔
دوسری ''افسوسناک‘‘ خبر یہ ہے کہ کشور ناہید کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ملنے پر مبارکباد دی‘ جس کا پتا مجھے اپنے دوست مسعود اشعر کے کالم سے چلا تو اس نے بات یہ کہہ کر ہنسی میں اڑا دی کو پھوکا ایوارڈ ہی تھا۔میں نے تو پوچھا تھا کہ لفافہ کدھر ہے تو آئیں بائیں شائیں کا جواب ملا ‘حالانکہ اکیڈمی کے ایسے ایوارڈ کے ساتھ پانچ لاکھ کا چیک بھی ہوتا ہے۔ اب یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ فہمیدہ ریاض کو بھی ایوارڈ کے ساتھ چیک ملا ہے یا نہیں جبکہ اس سے پہلے تمغہ￿ حسن کارکردگی کے ساتھ پانچ لاکھ کا چیک بھی شامل تھا اور پچھلے ہی سال ایوارڈ کے ساتھ عبداللہ حسین کو بھی ملا تھا۔
چنانچہ ظاہر ہے کہ یہ ایوارڈ سرکاری نہیں ہے ورنہ اس کے ساتھ چیک بھی ہوتا‘ جیسا کہ کوئی دو سال پیشتر حکومت پنجاب نے اسی ایوارڈ کے ساتھ پانچ لاکھ کا چیک بھی دیا تھا‘ اگرچہ وہ قسطوں میں تھا یعنی دو لاکھ پہلے اور تین لاکھ چند ماہ بعد۔ اب عزیزی عاصم بٹ نے معزز کالم نگار کو فون کر کے معلوم کیا اور بتایا ہے کہ یہ ایوارڈ کشور ناہید کو اگلے روز لاہور میں ختم ہونے والے عالمی میلے کی انتظامیہ کی طرف سے دیا گیا اور ایک تمغہ ان کے گلے میں پہنا دیا گیا اور بس ۔اب آپ اسے مذاق سمجھیں یا اعتراف‘ یہ آپ کی مرضی ہے‘ ہم تو اسے اعتراف ہی سمجھیں گے کہ ان لوگوں کے پاس اتنے پیسے کہاں ہوں گے کہ وہ ایوارڈ کے ساتھ شامل کرتے۔
آج کا مقطع
اک چیز بنائی ہے ظفرؔ مطبخِ دل میں
آج اس کے لیے شہد سے اور دودھ سے ہم نے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں