"ZIC" (space) message & send to 7575

آدمی غنیمت ہے (4)

ڈپٹی صاحب والے
....عروس البلاد کراچی مجھے1949ء کے آخر میں ڈال دیا گیا تھا۔ سرپرستی جناب سید رئیس احمد جعفری کی حاصل۔ بڑی محبت‘ ہتھیلی کے پھپھولے اور بالکل اپنے بچوں کی طرح گھر میں رکھا ۔بڑے گھروں میں آمدو رفت بھی خواص ہی کی رہا کرتی۔ آنے جانے والوں میں یہ کون ہیں‘ شاید احمد دہلوی کی صاحبزادی ہیں‘ دُھوم ان کی انگریزی زبان میں مہارت کی مچی ہوئی تھی۔ مارٹن روڈ‘ پیر الٰہی بخش کالونی سے ملحق محلہ ہے۔ شاہد صاحب کا اشتیاق دید کشاں کشاں مجھے وہاں لے گیا۔ نذیر احمد کے پوتے‘ بشیر احمد کے بیٹے دلّی کی ٹکسالی زبان لکھنے والے صاحب طرز ادیب‘ماہنامہ ساقی کے مدیر۔ جس نے خود تو چند ترجموں پر اکتفا کر کے بہتوں کو قلم پکڑنا سکھا دیا۔ایک تجربہ کار ناشر اور بلند پایہ موسیقارشاہد احمد دہلوی گویا اک قیامت کا سامنا‘ نہ دل دھڑکانہ گھبرایا‘ عمر ہی ایسی تھی۔ ایک کھری چارپائی پر بیٹھے ہوئے لکھ رہے تھے‘ مجھے قریب پا کر چشمے کی گہرائیوں سے جگمگاتی ہوئی سوالیہ نظریں مجھ پر گاڑ دیں‘ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مدعا بیان کیا ‘بہاول پوری ہونے کی رعایت سے زراعت ‘وہاں کی آب و ہوا‘ تعلیمی سلسلے وغیرہ کی پوچھ گچھ فرماتے رہے۔ باتیں تو یونہی سی اور اِدھر اُدھر کی رہیں لیکن لکھا میری بیاض میں مرحوم نے اُردو کے حق میں‘ ملاحظہ فرمائیے: اُردو کو پاکستان میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اُردو نہیں تو پاکستان کیوں۔
شاہد احمد دہلوی‘28-6-53
سودا مرحوم سے سلسلۂ مراسلت قائم کرنے کا سوار ہُوا۔ کچھ لکھنے لکھانے ‘کہنے سننے کی تمیز ہی کیا تھی‘ بحیثیت ایک دوست کے لکھ مارا۔ ظاہر ہے وہ مجھے پہچان نہیں سکے۔ تب اپنی حماقت کا احساس ہوا‘ معذرت خواہانہ لکھا کہ محض آپ کو متوجہ کرنے کے لیے یہ بیہودہ حرکت سرزد ہوئی ورنہ میں تو آپ کا خوشہ چیں ہوں اور خورد‘ اجنبی الگ۔ صبرو تحمل سے برداشت کر گئے۔ صرف اتنا لکھا کہ تعارف حاصل کرنے کے لیے اس قدر پُر اسرار بننے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کے بعد گاہے گاہے خط داغتا رہا۔ وہ نیاز فتح پوری کے پیرو تو نہیں تھے مگر خطوں کی رسید کا انداز تقریباً وہی تھا‘ مختصر ‘یک سطری۔ ''گنجینۂ گوہر‘‘ چھپی‘ میں نے قیمتاً طلب کی۔ جواب آیا ''میں نے نہیں چھاپی‘‘۔ اختر علی خاں زبردستی جعفری صاحب کو ادارت سونپ چکے تھے۔ یہ گویا ''زمیندار‘‘ کا سنبھالا تھا‘ ساقی کا جوش نمبر چھپ چکا تھا‘ رئیس احمد جعفری مرحوم کے قلم سے چند اداریے میرے ہاتھ لگ گئے‘ وہ میں نے اشاعت کی غرض سے پیش کرنا چاہے‘ جواب ملا جوش صاحب کے متعلق مضامین کا سلسلہ اب بند ہو چکا ہے۔ مولوی عبدالحق پر لگی لپٹی رکھے بغیر اگر کوئی لکھ سکتا تھا تو یہی شاہد صاحب مگر مصلحت کی در اندازی نے ان کے بھی ہاتھ‘ کہنا چاہیے ‘کاٹ کر رکھ دیے۔ اس پر احتجاج کیا گیا تو ٹکا سا جواب آیا'' مولوی مرحوم کے سلسلے میں ضرورت سے زیادہ بے تکلفی نہیں برتی جا سکتی‘‘۔ نجانے وہ کون سا جذبہ تھا جس نے ایک بھاری بھرکم نمبر جوش ملیح آبادی کی مذمّت میں مرتب کرا دیا تھا۔ غالباً اس لیے کہ جوش نے براہِ راست ان کی انا کو ٹھیس پہنچائی تھی۔
اصل یہ ہے کہ شاہد صاحب کی جس شاہانہ کروفر‘ عزت اور وقار‘ ٹھاٹ باٹ‘ اعزاز و تکریم سے گزری تھی‘ اس کا سرسری جائزہ لینا چاہیے۔ دادا نذیر احمد‘ بقول ان کے ''مارا بڈارا لڑکا‘ کسی نے نہ پوچھا تیرے منہ میں کتنے دانت ہیں‘‘۔ بجنور سے دلی آئے تو اللہ میاں کے مہمان کی حیثیت سے مسیت ہی میں ٹاٹ کی صفوں میں لپٹ کر سو جاتے‘ صبح آنکھ دیر سے کھلتی تو ملاّ جی کی دولتّی سے صف بھی کھل جاتی اور آنکھیں بھی۔ دُکھ اٹھا کر سکھ یہاں تک سمیٹے کہ نذیر احمد سے ڈپٹی نذیر احمد کہلائے‘ یہ آخری بڑا عہدہ تھا جو فرنگی راج میں کسی کالے کو مل 
سکتا تھا۔ پھر وہ ڈپٹی زیادہ ‘ نذیر احمد کم مشہور ہوئے۔ حاکم ضلع رہے‘ سبکدوش ہوئے تو دنیا کے علم و ادب میں حکمت کے موتی رولنے لگے‘ حکومت یہاں بھی ہاتھ سے نہ گئی‘ سربلند رہے‘ ادبی حلقوں میں خوب نام پایا۔ زبان وبیان پر وہ عبور کہ قرآن کا با محاورہ ترجمہ کر ڈالا۔ معنویت برقرار رکھنے کے لیے احتیاطاً جُملے بڑھا بھی دیئے مگر مذہبی حلقے ٹھنڈے پیٹوں کسی کی کب سنتے ہیں۔ یلغار اس حد تک بڑھی کہ نذیر احمد کے ردّ میں مولانا اشرف علی تھانوی بھی موجود ہیں۔ نذیر احمد نے ایک عیسائی کے ہفوات کے جواب میں اُمہات الامّہ لکھی تو نوبت بہ آتش زنی رسید‘ آج وہی تفسیر اور دوسری چیزیں حرزِ جاں بنی ہوئی ہیں۔ پندرہ سو پنشن کے آتے تو نذیر احمد رپُوں کا چبوترہ بنا کر بچوں کو اس پر بٹھاتے اور کہتے اتنی تو تمہاری تنخواہ بھی نہ آوے گی۔ سرسید آنے کو تو لاہور آ گئے‘ نیچری نیچری کے شور سے فضا کچھ ایسی بگڑی کہ شاہی مسجد میں مُٹھی بھرسامعین‘ کبھی سر سیّد اور کبھی وسیع و عریض دالان اور درو دیوار کو حسرت بھری نظروں سے تکتے تھے۔ رائے عامہ کو ہموار اور ہمنوا کرنے کے لیے نذیر احمد علی گڑھ سے لاہور پہنچے‘ ایک ہی معرکے میں مشکل آسان کر دی۔ بادِ سموم کو نسیم صبحگاہی میں بدل دیا۔
دادا کے بعد باپ بھی حاکم ضلع بنے‘ رہنے کے لیے اعلیٰ درجے کا سجا سجایا مکان ‘ پہننے اوڑھنے کو اتنے جوڑے کہ ایک باری پہناہوا جوڑا دن پھرنے کا منتظر پڑا رہے۔ سینکڑوں جوتے‘ کتابوں سے پٹے ہوئے کمرے‘ سواری کے لیے بگھیاں‘ کئی لاکھ روپیہ پس انداز کیا‘ تین چار ہزار ماہانہ کی یافت‘ بقول بیٹے کے ''دلی کے نام نہاد نوابوں سے زیادہ ٹھاٹھ کی زندگی گزارتے‘‘ ۔سرکار میں بات بنی ہوئی تھی۔ استغنیٰ کا یہ عالم کہ خان بہادری کا خطاب تجویز ہوا‘ انکار کر دیا‘ آنریری مجسٹریٹی یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ علمی مشاغل میں فرق آتا ہے‘ گھر پہ کاتب مقرر تھے۔ بیمار پڑتے تو ڈاکٹر انصاری بلائے جاتے۔ مردانہ اور زنانہ مکان الگ الگ پردے کی یہ سختی کہ بارہ برس کا لڑکا زنان خانے میں نہیں جا سکتا تھا۔ مرے تو تیرہ وارثوں میں بٹنے کے بعد شاہد صاحب کے حصے میں پچاس ہزار روپے نقد اور ڈھائی سو ماہانہ کے کرائے کے مکان آئے۔ غرض علم و عمل‘ دین و دنیا سے ہر طرح سرفراز۔
خود شاہد صاحب کا حال سنیے۔ باپ کے ساتھ چار برس کی عمر میں دکن سے آئے‘ دادا کے سلام میں اشرفی پائی‘ لڑکپن میں ماسٹر ناظر حسن اور عزیز الحسن لڑکوں کو بے دردی سے مارتے‘ مگر ان پر خاندانی وجاہت کی وجہ سے ہمیشہ نظر کرم ہی رہی۔ کانونٹ سکول میں پڑھنے بٹھائے گئے جہاں کالوں کا داخلہ ممنوع تھا اور شاہد کا شمار گوروں میں کبھی نہیں ہوا۔ ''شاہد رعنا‘‘ کی تہمت سے یکسر آزاد۔ ماں مری تو انگریز نرسیں تربیت اور نگہداشت کے لیے مقرر کی گئیں۔ علی گڑھ پہنچے تو نگرانی بطورِ خاص ڈاکٹر ضیاء الدین کی تھی۔ بورڈنگ میں ذاتی ملازم اور پرائیویٹ ٹیوٹر دونوں حاضر۔ ایف سی کالج لاہور سے ایف ایس سی کیا‘ رستم ہند اور گونگے کی کشتیاں دیکھیں‘ بڑے غلام علی خاں کو سُنا...
آج کا مطلع
بُھلا دیا اُسے جس کو بُھلا نہ سکتے تھے
گھر آ گئے جو کبھی واپس آ نہ سکتے تھے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں