اگلے روز جن صاحب کا ذکر ہوا تھا کہ کراچی سے ہیں‘ وہ عزیز صاحب تھے جن کا آج بھی فون آیا اور میری درستی کی ہے جومیں نے شیفتہ کا شعر یوں لکھ دیا تھا ؎
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
انہوں نے بتایا کہ دوسرا مصرعہ اس طرح سے ہے کہ ع
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی
برادرم ڈاکٹر تحسین فراقی نے آج بتایا کہ آگ برابر لگنے والا شعر یوں ہے ؎
الفت کا جب مزہ ہے کہ ہوں وہ بھی بیقرار
دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی
اور یہ شعر ایک گمنام شاعر ظہیر الدین ظہیر کا ہے جو شیفتہ کے ہم عصر تھے یا اس کے بعد کے۔ جہاں تک شیفتہ کا تعلق ہے تو فراقی بتا رہے تھے کہ خود غالب شیفتہ کو بہت مانتے تھے جو ان کے اس شعر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ؎
غالب بہ فن گفتگو نازد بدیں ارزش کہ اُو
ننوشت در دیواں غزل تا مصطفی خاں خوش نہ کرد
اور شیفتہ ہی کا نام مصطفی خاں تھا۔ یہ بھی بتایا کہ شیفتہ نے گو بہت کم شعر کہے لیکن ان میں سے زیادہ تر ضرب المثل ہو گئے، جن میں ان کے یہ اشعار بھی شامل ہیں ؎
ہم طالبِ شہرت ہیں‘ ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے‘ تو کیا نام نہ ہو گا
تم لوگ بھی غضب ہو کہ دل پر یہ اختیار
شب موم کر لیا‘ سحر آہن بنا لیا
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بند قبا دیکھ
لطف یہ ہے کہ یہ اشعار یا ان کے مصرعے ہم اپنی تحریروں میں اکثر استعمال کرتے ہیں‘ یہ جانے بغیر کہ یہ کس کے ہیں!
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں (رشکی)
رشکی کے بارے میں بتایا کہ یہ شیفتہ کے بیٹے تھے !
شعر کی درستی کے لیے عزیز صاحب کا بھی شکر گزار ہوں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ (اس سے مجھے کامریڈ عبداللہ ملک مرحوم بہت یاد آئے جو اپنا تقریباً ہر جملہ 'لطف یہ ہے کہ‘ سے شروع کیا کرتے تھے، مثلاً ایک دفعہ ایک واقعہ رپورٹ کر رہے تھے کہ فلاں محلے میں گٹر کا ڈھکنا نہیں تھا‘ سو پچھلے دنوں اس میں گر کر ایک بچہ ہلاک ہو گیا۔ اور لطف یہ ہے کہ اسی گٹر میں آج پھر ایک بچہ گر کر ہلاک ہو گیا ہے۔)مجھے تو عزیز صاحب بالکل یاد نہیں تھے جو ساہیوال سے متعلقہ کہانیاں سناتے رہتے ہیں کہ جہاں پارٹی کے حوالے سے ہماری ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ بہرحال انہی نے مجھے ڈھونڈ نکالا اور اب اکثر رابطہ رہتا ہے‘ اور وہ بھی کسی نہ کسی شعر کے حوالے سے؛ چنانچہ جو لوگ مجھے یاد ہیں ان میں رانا محمد حنیف جو 70ء کے الیکشن کے بعد وفاقی وزیر خزانہ ہوئے ‘ رائو خورشید علی خاں، جو ضلعی صدر تھے اور جن کے خلاف مجھے بعد میں اوکاڑہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑنا پڑا‘ جس میں وہ جیت گئے تھے، بھی شامل ہیں۔ البتہ ایک نوجوان‘ خواجہ عسکری حسن مجھے اچھی طرح سے یاد ہیں۔ گورے چٹے اور سمارٹ۔ میں نے ان کا ذکر کیا اور پوچھا کہ آیا وہ حیات ہیں تو بتانے لگے کہ جدی پشتی زمیندار ہیں، ایک ایکڑ کی کوٹھی میں رہتے ہیں اور مزے کر رہے ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ بھٹو دور میں پارٹی کے ارکان اسمبلی اور عہدے داروں کو ٹویوٹا گاڑی کا ایک ایک پرمٹ بھی دیا گیا تھا، جس کے بدلے کسی زمانے میں پچیس تیس ہزار روپے مل جاتے تھے۔ خواجہ صاحب کو پرمٹ ملا تو انہوں نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ میرے پاس بائیسکل ہے اور وہ مجھے کافی ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ ڈاکٹر مبشر حسن، جو موصوف کے فسٹ کزن ہیں‘ کو بھی یہ پرمٹ ملا تھا اور انہوں نے بھی واپس کر دیا تھا اور لطف یہ ہے کہ خواجہ صاحب کی اس سلسلے میں انکوائری بھی ہوئی اور انہیں ایک کرنل صاحب کے سامنے پیش ہونا پڑا جنہوں نے انہیں چائے پلا کر فارغ کر دیا۔ اس زمانے میں حنیف رامے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے اور فتح محمد ملک ان کے پریس سیکرٹری؛ چنانچہ انہوں نے مجھے بھی ایک پرمٹ بھیجا لیکن میں گاڑی خرید سکا اور نہ ہی اسے بیچ کرپیسے کھرے کر سکا۔
میرے کہنے پر عزیز صاحب نے خواجہ صاحب کا موبائل نمبر دیا۔ میں نے انہیں کال کیا تو اس وقت کوئی دس بجے صبح کا عمل ہو گا۔ نیم خوابیدہ آواز میں بولے۔ میں نے معذرت چاہی کہ شاید آپ کو نیند سے بیدار کر دیا۔ میں پھر فون کر لوں گا۔ کہنے لگے کوئی بات نہیں‘ کہیے۔ میں نے کہا، ذہن پر ذرا زور دے کر بتائیے آپ کسی ظفر اقبال کو جانتے ہیں؟ تو بولے وہ اوکاڑے والے ؟ حال چال پوچھا تو بتایا کہ ٹھیک ہوں ‘ بس تنہائی کا شکار ہوں۔ میں نے کہا، میری بھی یہی حالت ہے۔ میں نے کہا کہ بچوں کی رونق تو ہو گی کہنے لگے ایک بیٹی ہے۔
استاد ذوق بہت یاد آئے جنہوںنے کہہ رکھا ہے ؎
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
سو‘ کسی ہمدم دیرینہ سے بات ہو جانا بھی ملاقات سے کم نہیں ہے۔ وہاں کے دوستوں میں میاں خان محمد ایڈووکیٹ کے ساتھ چند سال پہلے تک رابطہ رہا جب میں چلنے پھرنے کے ٹھیک ٹھاک قابل تھا۔ یہ بھی الیکشن70ء میں ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ کوئی دو سال پیشتر میں ایک گواہی کے سلسلے میں ایک سول جج کی عدالت میں ساہیوال گیا تو انہوں نے مجھے اپنے چیمبر ہی میں بلا کر میرا بیان لکھا اور بتایا کہ وہ میاں خان محمد کے بیٹے ہیں اور غائبانہ مجھے ان کے دوست کی حیثیت سے بھی جانتے تھے۔ خواجہ صاحب نے پوچھا، آج کل کہاں ہوتے ہیں‘ میں نے لاہور کا بتایا تو کہنے لگے کہ کبھی ساہیوال آئیں تو ملاقات ہو۔ عزیز صاحب نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر مبشر حسن اب ماشاء اللہ 97برس کے ہو گئے ہیں اور ٹھیک ٹھاک چلتے پھرتے ہیں‘ البتہ لاٹھی ہمیشہ ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ ہاں یاد آیا‘ ساہیوال سے انہی دنوں ہمارے دوست سردار علیم ایڈووکیٹ بھی ایم این اے منتخب ہو کر وزیر مملکت ہوئے تھے۔ مزید یہ کہ میں ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے شرمندہ ہوں کہ انہوں نے غالب پر لکھی ہوئی اپنی کتاب مجھے بھجوائی تھی، جو کوئی صاحب اٹھا کر لے گئے اور میں اس پر کچھ لکھنے سے معذور رہا۔
آج کا مقطع
دور ہے سبزہ گاہِ معنی‘ ظفرؔ
ابھی الفاظ کا یہ ریوڑ ہانک