علی اکبر ناطق کا یہ دوسرا مجموعہ نظم ہے جو '' آج‘‘ کراچی نے چھاپا اور قیمت200 روپے رکھی ہے۔ اس کے علاوہ افسانوں کا مجموعہ اور ایک ناول پیش کر چکے ہیں اور اب کچھ عرصے سے تنقید پر بھی ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا ہے۔ کوئی عجب نہیں اگر وہ کسی دن مسدس حالی یا مثنوی گلزار نسیم قسم کی کوئی چیز لکھ کر آپ کو حیران کر دیں۔
کتاب کا پیش لفظ موصوف نے خود لکھا ہے اور انتساب اپنی بیٹی وجیہہ بتول اور بیوی رضیہ پروین کے نام کیا ہے۔ پس سرِورق شاعر کی اپنی ہی ایک نظم درج ہے۔ کتاب سمارٹ اور شاعری نے مجھ سے فل مارکس حاصل کئے ہیں۔ اس کی یہ دو نظمیں دیکھ لیجیے جس سے آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کس کینڈے کا شاعر ہے:
کھڑے پانیوں کے کنارے
جہاز آ گیا ہے
مگر بادبانوں کے دھاگے سلامت نہیں لے کے لوٹا
فلک بوس عرشے کے تختے سلامت نہیں لے کے لوٹا
جہاز آ گیا ہے
کھڑے پانیوں کے کنارے
جمی ریت پر آ کے ٹھہرا ہوا ہے
کئی دن ہوئے ہیں کنارے کی لہروں میں
ہچکولے کھاتے ہوئے بے بسی سے
کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف میں
مگر اس کے زینوں سے کوئی مسافر‘ نہ کپتان اترا
کھڑے پانیوں میں جو لنگر گرائے
جہاز آ گیا ہے فقط ایک سناٹا لے کر
پھٹے بادبانوں کے رسّوں سے کس کر جسے باندھ رکھا کسی نے
ہوا کشتیاں ہیں نہ چپو
نہ کمپاس باقی بچے ہیں
جو آ کر سناتے سمندر کی ہم کو کوئی داستاں ہی
نمک خوردہ چھتے پہ صدیوں کی برفیں
کبھی اٹھتے دیکھا نہ میں نے دُھواں
اس کی فولادی چمنی سے اب تک
مگر وہ پرندے دہانے کے اُوپر ابھی آ کے بیٹھے ہیں
کچھ دیر تک اپنی چھاتی کے نازک پروں میں
چلائیں گے مِنقار کی قینچیاں
پھر یہ دم بھر میں اُڑ کر کسی اور جانب نکل جائیں گے
انہیں اس سے کیا
کہ جہاز آ گیا ہے
مگر وہ مسافر جو اس کو امانت کیے تھے
نہیں لے کے آیا
ریت کے ٹیلے
میں نے کہا تھا آخر اک دن تھک جائیں گے
ریت کے ٹیلے کھودنے والے کب تک ٹیلے کھودیں گے
میں نے کہا تھا دھرتی چھیونے والے آخر رُک جائیں گے
تیل کے چشمے ڈھونڈنے والے کب تک چشمے ڈھونڈیں گے
کب تک آگ کی مشکیں بھر کر گہرے کنوئوں سے کھینچیں گے
چہروں پر چھڑکائیں گے
دھرتی کو دہکائیں گے
آخر اک دن تھک جائیں گے
میں نے کہا تھا بھاری ضربیں تھم جائیں گی
کب تک تیشہ مارنے والے ہاتھ زمیں کو پیٹیں گے
نور کے ذرّے توڑیں گے اور شعلوں کو لہرائیں گے
کب تک راکھ اڑائیں گے
ہانپ کے اک دن بیٹھ رہیں گے
میں نے کہا تھا دیکھنا اک دن مینہ برسے گا
زرد ہوا کو مانجے گا اورابر کو چمکائے گا
سبز فضا لہرائے گی
میں نے کہا تھا شور تھمے گا‘ زہر بجھے گا گندھک کا
لیکن میں نے جھوٹ کہا تھا
ریت کے ٹیلے کھودنے والے
جنتے رہیں گے ٹیلے کھودنے والوں کو
دیکھنا اک دن سارے ٹیلے بھڑک اٹھیں گے
گاڑھے دُھؤیں کا ابر اٹھے گا
سانس گُھٹے گی
اور میں روتے روتے آخر تھک جائوں گا
آج کا مقطع
دریا ہے‘ ڈوبنا ہو تو پایاب ہے‘ ظفر
ساحل پہ بیٹھ جائو تو گہرا ہے اور بھی