آسمان سے فرشتے نہیں اُتریںگے‘ ملک
سے ہی کسی کو آگے آنا ہوگا: چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ''کرپشن اور بیڈ گورننس ختم کرنے کے لیے فرشتے نہیں اُتریں گے‘‘ ہم میں سے ہی کسی کو آگے آنا ہو گا اور میں اکیلا تو کچھ نہیں کر سکتا اور جنہوں نے میرے ساتھ مل کر کچھ کرنا ہے وہ ٹخنوں پر راکھ مل کر بیٹھے اپنی مقبولیت کے مزے اُڑا رہے ہیں اور میں ان علّتوں کے خلاف صرف بیان دینے کے لیے رہ گیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک میں 30 سال تک ڈنڈے کے زور پر حکومت کی گئی‘‘ جس میں بعض اوقات عدلیہ کا ڈنڈا بھی شامل ہوا کرتا تھا جو کہ پے در پے سؤ موٹو نوٹس لے لے کر ایک مزید ڈنڈا بردار حکومت کی راہ ہموار کیا کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ''تحفہ میں عربی گھوڑا نہیں لے سکتا‘‘ کیونکہ عرب شریف سے تو اُونٹ ہی بہترین تحفہ ہو سکتے ہیں جبکہ میرے گھر میں تو گھوڑے اور اُونٹ کو باندھنے کے لیے جگہ ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں مقامی بار سے خطاب کر رہے تھے۔
کمشن کے ٹی او آرز پر حکومت
کو لچک دکھانا ہو گی : خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''کمشن کے ٹی او آرز پر حکومت کو لچک دکھانا ہوگی‘‘ اور اگر حکومت نے کچھ لچک دکھائی تو اس کے بعد اپوزیشن ڈٹ جائے گی اور بلی چوہے کا یہ کھیل ہمیشہ کے لیے جاری رہے گا اور اگر ٹی او آرز پر اتفاق ہو بھی گیا تو بال کی کھال نکالنے کے لیے کئی دوسری راہیں بھی موجود ہوں گی‘ حتیٰ کہ تنگ آ کر کمشن بننے سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ جائے گا کیونکہ اس معاملے کی قسمت میں یہی لکھا جا چکا ہے اور تقدیر کے لکھے کو کوئی نہیں مٹا سکتا اور اگر کوئی ایسا کر سکتا ہے تو سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ ''پارلیمانی کمیٹی کو مزید اختیار ملنا چاہیے‘‘ اور ان اختیارات کی فہرست تیار کرنے کے لیے اگر مزید ایک کمیٹی بھی بنا دی جائے تو کوئی ہرج نہیں کیونکہ یہ کام آرام سے ہی ہو گا کہ جلد بازی شیطان کا کام ہے اور اللہ کے فضل سے ہم سب فرشتے ہیں۔ آپ اگلے روز اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
ترقی و خوشحالی کے راستے میں کسی کو
رکاوٹ ڈالنے نہیں دیں گے : شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''ترقی کے راستے میں کسی کو رکاوٹ ڈالنے نہیں دیں گے‘‘ جو ہسپتالوں اور سکولوں کی صورتحال سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ادارے رفتہ رفتہ ختم ہوتے جا رہے ہیں اور صرف ترقی و خوشحالی ہی باقی رہتی نظر آتی ہے اگرچہ اسی ترقی و خوشحالی نے آج کل خاصی مصیبت ڈالی ہوئی ہے اور خطرہ ہے کہ کہیں اس مصیبت ہی میں ترقی ہونا شروع نہ ہو جائے اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ ان کم بخت لیکس نے بھی اسی خوشحالی کے موسم میں آنا تھا‘ تاہم حکومت اور اپوزیشن پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اس پر لگی ہوئی ہیں کہ جس طرح بھی ہو سکے کمشن وغیرہ سے جان خلاصی ہو سکے اور اس کی نوبت ہی نہ آئے ورنہ دونوں فریق اپنی خیر منائیں کیونکہ اس صورت میں نہ کوئی بندہ رہے گا اور نہ بندہ نواز۔ آپ اگلے روز اقبال مہدی کی رہائش گاہ پر ان کے انتقال کی تعزیت کر رہے تھے۔
اندرونی انتشار پس پشت ڈال کر پاکستان
کے دشمنوں سے نمٹنا ہو گا : خواجہ آصف
وفاقی وزیر دفاع‘ پانی و بجلی خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ''اندرونی انتشار کو پس پشت ڈال کر پاکستان کے دشمنوں سے نمٹنا ہو گا‘‘ اور چونکہ فی زمانہ پاناما لیکس ہی ملک کو اندرونی انتشار کے طور پر درپیش ہے اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اسے پس پشت ڈالا جائے جس کے لیے حکومت اور اپوزیشن مل کر بھی مساعی جمیلہ میں مصروف ہیں اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اللہ میاں کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتے اور خدا انہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اور دونوں فریق اندر خانے ایک دوسرے کی سرتوڑ مدد کرنے میں مصروف ہیں کیونکہ دونوں فریق خلوص دل سے ایسا سمجھتے ہیں کہ دونوں مل کر ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور یہ اس سلسلے میں اپنی سی کوشش پہلے بھی کرتے آئے ہیں جس کا ایک زمانہ گواہ بھی ہے۔ آپ اگلے روز اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
''سخن سرمایہ‘‘ اور ''کُلیّات قیصر نجفی‘‘
''سخن سرمایہ‘‘ رفیع الدین راز کا کلیات ہے تو دوسرا کلیات قیصر نجفی کا ہے۔ دونوں رنگ ادب کراچی نے چھاپے ہیں۔ اول الذکر کی قیمت 1300 روپے ہے تو آخر الذکر کی 1000 روپے۔ سخن سرمایہ میں سات مجموعے اور کلیات قیصر نجفی میں چھ‘ ان کی تحسین کرنے والوں میں ڈاکٹر اسلم فرخی‘ پروفیسر سحر انصاری‘ محسن ملیح آبادی‘ جاوید رسول‘ جوہر اشرفی‘ پروفیسر ظفر حبیب‘ جاذب قریشی‘ ڈاکٹر شارب احسانی‘ ڈاکٹر رشید نثار‘ ڈاکٹر منصور قمر‘ پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم‘ پروفیسر انجم اعظمی‘ ڈاکٹر ابوالخیر کشفی‘ ممتاز حسن اور دیگر حضرات شامل ہیں۔ قیصر نجفی کی کتاب کا ایک وافر حصہ سرائیکی میں ہے۔ دونوں کتابوں میں غزلیں ہیں اور نظمیں۔
روایت میں گُندھی یہ مرنجاں مرنج شاعری ہے جو کسی کا کچھ بگاڑتی ہے نہ سنوارتی‘ حق تو یہ ہے کہ جدت کی ہوا لگنے سے پوری شاعری کا ماحول‘ موسم اور فیشن ہی تبدیل ہو کر رہ گیا ہے اس لیے روایتی شاعری بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اچھا شعر نکال لینا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی جب تک کہ پیرایہ اظہار شاعری کو آگے نہ بڑھا رہا ہوتا ہو، کیونکہ اس طرح صرف شاعری کی کتابوں میں اضافہ ہوتا ہے، شاعری میں نہیں، یہ جدید شعری تقاضوں پر پورا نہیں اترتی‘ تاہم یہ بھی ہے کہ جس طرح کی شاعری ہو اسے انہی طرح کا قاری بھی مل جاتا ہے‘ اس لیے شاعر کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے نہ ناشر کو، چنانچہ سب کا کام اپنی اپنی جگہ پر چل رہا ہوتا ہے یعنی ع
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست
آج کا مطلع
کچھ ہوئے باغی یہاں کچھ لوگ بے دل ہو گئے
اور کچھ شائستۂ معیارِ محفل ہو گئے