اصل بات
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلکہ گاڈ فادر جناب آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ طالبان حامی مدرسے کو 30کروڑ روپے دے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کمزور کی گئی۔ انہوں نے یہ بیان جاری کرتے ہوئے اپنے اس موقف کی حمایت میں مزید دلائل بھی دیئے ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ بینظیر بھٹو سے لے کر اجمل خٹک ‘ ولی خان اور باچا خاں تک اس مدرسے کو نہ صرف وزٹ کرتے رہے ہیں بلکہ چندہ بھی دیتے رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اگراس مدرسے کا ماضی میں کردار مشکوک بھی رہا ہے تو کیا قومی دھارے میں لانے کی بجائے اسے جوں کاتوں ہی رہنے دیا جائے؟ ان کا یہ اعتراض کہ صرف ایک یہ مدرسہ ہی کیوں تو کسی اور ایسے مدرسے کے ساتھ ایسا حسن سلوک آپ کی پارٹی کو کرنے سے کس نے روکا ہے‘ اس کارخیر میں آپ بھی حصہ لے سکتے ہیں؛ البتہ اس اقدام میں اتنی سی سیاست ضرور ہے کہ مولانا فضل الرحمن جو ہر وقت عمران خان کی ہوا کو بھی تلواریں مارا کرتے ہیں‘ ان کے ایک مخالف دھڑے کو اپنے قریب کیا جائے۔ علاوہ ازیں‘ موصوف کی طرف سے اس واویلا کی ایک وجہ تحریک انصاف سے اتنا فاصلہ رکھنا بھی مقصود ہو سکتا ہے کہ کل کلاں عمران خان کے ساتھ مل کر حکومت اور نواز شریف کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کا امکان کم سے کم رہنے دیا جائے کیونکہ وہ حکومت کے خلاف ایک محدود حد سے آگے جانے کو تیار نہیں ہیں کہ فائلیں ان لوگوں کی بھی کھولی جا رہی ہیں اور اس ضمن میں بلاول بھٹو زرداری کی حکومت مخالف بڑھکوں کو بھی زبانی کلامی تک ہی رکھا جائے اور حکومت موافق ہونے کا تاثر بھی پیدا نہ ہو۔
جھوٹ‘ سفید جھوٹ اور اعداد و شمار
وزیر اعظم کی تیز رفتار صحت یابی کا ایک مظہریہ بھی رہا کہ آپ نے اپنے اہل خاندان کے ہمراہ اگلے روز لندن کے مہنگے ترین ہیرڈز سٹور میں شاپنگ بھی فرمائی۔ یہ لطیفہ اپنی جگہ موجود ہے کہ وزیر اعظم کے چار بائی پاس ہونا تھے لیکن انہوں نے غیر معروف ہسپتال کاانتخاب کیا۔ اس کے بعد برق رفتار صحت یابی کی پھرتیاں اس کے علاوہ ہیں۔ اس طرح آپ نے عوامی ہمدردیاں حاصل کر لیں اور بعض خدشات کے تحت ملک سے باہر رہنے کا جواز بھی فراہم کر لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ا ن کی غیر حاضری میں مختلف افراد کی طرف سے جو سرکاری اقدامات کیے گئے ہیں وہ غیر آئینی ہونے کی بناء پر کسی وقت بھی عدالت میں چیلنج کیے جا سکتے ہیں اور ان کے لیے ایک نیا بحران کھڑا ہو سکتا ہے جبکہ کچھ کارروائیاں الیکشن کمیشن میں شروع بھی کر دی گئی ہیں‘ ہیں جی!
ہمارے ہسپتال
مبارک ہو جناب کہ ورلڈ ہسپتالوں کی ویب سائٹ کے مطابق ملک کے بڑے 20سرکاری ہسپتالوں میں سے صرف14ایسے ہیں جو کسی معیار پر پورا اترتے ہیں‘ اور مزید مبارک ہو کہ ہمارے ملک کا بہترین سرکاری ہسپتال دنیا کے ہسپتالوں میں 591ویںنمبر پر ہے۔ اس کے بعد دیگر ملکی ہسپتالوں کے بارے میں ان کے معیار کے حوالے سے تفصیلات دی گئی ہیں۔ حق بات تو ہے اور جس کا اعادہ کئی بار ہو چکا ہے کہ ملک میں اس معیار کا کوئی ہسپتال نہیں ہے جہاں وزیر اعظم اپنا چیک اپ کروا سکیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے اپنی اوپن ہارٹ سرجری کے لیے بھی لندن کے ایک غیر معروف کلینک کو ترجیح دی۔ ملک میں تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی جو عمومی صورت حال ہے اور جس کا تعلق براہ راست20کروڑ عوام کی صحت اور حیات و موت سے ہے‘ اس کی تفصیلات آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں جبکہ حکومتی توجہ صرف میگا پراجیکٹس پر ہے جس کا عوام کی زندگی سے کوئی حقیقی تعلق نہیں ہے۔
ڈوبنے کو تیار رہیں!
ایک اخباری اطلاع کے مطابق حکومت نے فلڈ وارننگ سسٹم کی اپ گریڈیشن کے لیے سات ارب روپے دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں فلڈ وارننگ سسٹم اس قدر ناکارہ ہو چکا ہے کہ اس سلسلے میں ایک بھی راڈار کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔ منگلا وارننگ سسٹم2001ء میں نصب کیا گیا ؛چنانچہ پی ایم ڈی نے نئے راڈار لگانے کے لیے حکومت سے رقم کا مطالبہ کیا جو رد کر دیا گیا۔یوں عوام کو ہر سال سیلاب میں ڈبکیاں لگانے کے یے چھوڑ دیا گیا ہے جس میںسینکڑوں انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ہزاروں مویشی بھی پانی میں بہہ جاتے ہیں۔ تباہ حال علاقوںکی آبادکاری کا کام کسی نتیجے پرنہیں پہنچتا اور اگلا سیلاب اپنی فتنہ سامانیوںکے ساتھ زیریںعلاقوں پر چڑھ دوڑتا ہے۔ ہمارے حکمران ربڑ کے بوٹ پہن کر اور تصویریں اتروانے کے لیے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کی سخاوت کا اہتمام کرتے نظر آتے ہیں۔
زمینوں پر قبضے
سائیں قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ کراچی بلکہ پورے سندھ میں بدامنی کی سب سے بڑی وجہ زمینوں پر ناجائز قبضے ہیں جن میں بڑی شخصیات ملوث ہیں۔ بندہ نواز‘ حکومت آپ کی ہے‘ اول تو آپ نے یہ قبضے ہونے ہی کیوں دیے اور اگر ہو گئے تھے توآپ کی حکومت نے انہیں واگزار کیوں نہیں کروایا۔ اس کی وجہ بھی آپ نے بتا دی ہے کہ اس میں بڑی بڑی شخصیات ملوث ہیں جن کے خلاف حکومت کارروائی نہیںکر سکتی کیونکہ یہ خود حکومت ہی کے لوگ ہیں اور یہ بھی کہ سائیں نے باقاعدہ ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ اور‘ یہ کوئی ڈھکے چھپے لوگ بھی نہیں‘ان کے اسمائے گرامی گاہے بگاہے اخبارات میں آتے رہتے ہیں بلکہ جو لوگ کسی نہ کسی جرم میں پکڑے جاتے ہیں‘ ان کے ذریعے بھی ان نامی گرامی ہستیوں کا پتا چلتا رہتا ہے اور ایسے انکشافات بھی کہ انہیں کن بڑے لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے ۔ موصوف کے اس بیان کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نہ یہ قبضے واگزار ہوں گے اور نہ ہی کراچی امن و امان کا منہ دیکھ سکے گا‘ اس لیے خاطر جمع رکھیں۔
آج کا مقطع
اب شعر و شاعری کا زمانہ نہیں‘ ظفر
کہیے تو یہ دکان بڑھا کیوں نہ دیجیے