مون سون شروع ہے اور گرمی کا عذاب ختم۔ پاکستان دنیا کے ان معدودے چند ملکوں میں شامل ہے جنہیں اللہ میاں نے کئی موسموں سے نوازا ہے۔ بارش کا تو یہ ہے کہ اسلام آباد کی طرح داتا کی نگری میں بھی چار پانچ روز کڑک گرمی پڑنے کے بعد مینہ برستا اور شہر کا منہ دھو جاتا ہے۔ لوگ تو لوگ پیڑ پودے بھی جھومنے اور لہلہانے لگتے ہیں حتیٰ کہ زمین کا ذرہ ذرہ اس جشنِ مسرت میں شامل نظر آتا ہے کیونکہ یہ نعمت سب کے لیے ہے اور یہ ہر جگہ اپنا اثر بھی چھوڑتی ہے‘ آب رواں کا شعر ہے ؎
دل سے تو خیر دھو گئی بارش تمام نقش
دیوارِ شہر کا بھی وہ عالم نہیں رہا
پھر اس کا اضافی حسن یعنی بادل اور ہوا۔ شاعر کو تو پاگل کر دینے کے لیے یہ کافی ہوتے ہیں۔ میری بسیار گوئی سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ میں نے بارش کے موضوع پر کتنے شعر کہے ہوں گے۔ وہ تو شکر کیجئے کہ مجھے اپنے شعر یاد نہیں رہتے ورنہ آپ کی توبہ توبہ تو کروا ہی دیتا۔ دماغ پر زور دینے سے خال خال شعر یاد بھی آ جاتے ہیں اگرچہ اس عمر میں دماغ پر زیادہ زور دینا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ یہ شعر دیکھئے ؎
آنسوئوں کا زور ہے اور شعلہء دل ہے بلند
جل رہا ہے یہ دیا برسات میں رکھا ہوا
اور اسی غزل کا یہ مقطع جو برادرم سلیم بخاری کو بہت پسند ہے:
پائوں پھیلاتا ہوں چادر دیکھ کر میں بھی‘ ظفر
کچھ مجھے اس نے بھی ہے اوقات میں رکھا ہوا
بہرحال دماغ پر مناسب زور دینے سے یہ دو شعر بھی یاد آ گئے ہیں ؎
آنسوئوں کی تیز بارش میں جو وا رہتا تھا دل
باغ سا اس آئنے میں زنگ سے پیدا ہوا
وسیّا مینہ نے بھجھے کپڑے گھر پہنچن توں پہلاں
کھیسے اندر کُھریاں چارے پڑیاں زہر دیاں
پھر یہ چیزیں استعمارے تو بنتی رہتی ہیں مثلاً ؎
وہ ابر اب بھی کڑکتا ہے میرے سر میں‘ ظفر
لہو میں اب بھی وہ بجلی کہیں چمکتی ہے
آج جو رسالے موصول ہوئے ہیں ان میں ایک تو محبّی اختر شمار کا ''بجنگ آمد‘‘ ہے جو اس بار کافی پھیکا پھیکا سا لگا ہے یعنی نہ کوئی نوک جھونک نظر آتی ہے‘ نہ چھیڑ چھاڑ اور نہ چیر پھاڑ۔ وزیر اعظم برطانیہ سر ونسٹن چرچل کا کچھ روز اخباروں میں کارٹون نہیں چھپتا تھا تو وہ اخبار نویسوں سے گلہ کرتے کہ آپ نے مجھے بھلا ہی دیا ہے۔ کہیں بجنگ آمد سے یہ تنگ آمد تو نہیں ہو گیا؟ رونق تو لگی ہی رہنی چاہیے۔ ایسے پرچوں کی سنجیدگی بجائے خود مضحکہ خیز لگتی ہے۔
دوسرا پرچہ پنڈی اسلام آباد سے چھپنے والا ماہنامہ اردو کالم ہے جسے عابد سیال اور ڈاکٹر طلعت نورین نکالتے ہیں اور جو اس بار سالنامہ ہے حالانکہ اس کی ضخامت سالناموں والی ہے اور نہ قیمت۔ مضامین بھی زیادہ تر مشکل اور ثقیل ہیں۔ سوال ہے کہ کیا تنقید کو قابل مطالعہ نہیں بنایا جا سکتا؟ ورنہ تو عموماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ تنقید کو صرف نقاد ہی پڑھتے ہیں‘ حالانکہ یہ شعر و ادب میں دلچسپی رکھنے والے سارے لوگوں کے پڑھنے کی چیز ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ تنقید تخلیق کی ذیل میں نہیں آتی لیکن یہ تخلیقی ہو بھی سکتی ہے‘ گوپی چند نارنگ کی تنقید کی طرح! ویسے تو بعض ستم ظریفوں کے نزدیک نظم کو بھی نظم گو ہی پڑھتے ہیں‘ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ نظم اپنی جگہ بنا رہی ہے اور ستیہ پال آنند کے مطابق اگر غزل نے نظم کا کچھ علاقہ چھین رکھا ہے تو اسے آگے بڑھ کر واپس لینا چاہیے!
ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ اسلام آباد سے فرخ یار آئے ہوئے ہیں جو کل اقتدار جاوید کے ہمراہ ملنے کے لیے بھی آئیں گے۔ ان کی ایک نظم دیکھیے۔
میں نے اُسے اتنا دیکھا ہے
جتنا دو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے
لیکن دو آنکھوں سے آخر کتنا دیکھا جا سکتا ہے
لطف بلکہ لطیف یہ ہے کہ اگر انہی الفاظ کو دو مصرعوں میں سمیٹ دیا جائے تو غزل کا شعر بن جائے گا! مطلب یہ ہے کہ غزل اور نظم میں فاصلے کم ہو رہے ہیں اور ہونا بھی چاہئیں تاکہ نظم اور غزل کا جھگڑا ہی ختم ہو جائے‘ جو دراصل نظم گو کا جھگڑا ہے غزل گو کے ساتھ۔ اور اس کا صحت مندانہ پہلو یہ ہے کہ دونوں اصناف کے اسی جھگڑے جھانجھے میں پھلتی پھولتی رہیں گی یعنی ع
خدا شرّے بر انگیزد کہ خیرِ ما دراں باشد
ہمارے ہاں اچھے لوگ پہلے ہی بہت کم رہ گئے تھے اور اب بچے کھچے بھی رفتہ رفتہ کوچ کرتے جا رہے ہیں۔ عبدالستار ایدھی کا شعر و شاعری کے ساتھ تو کوئی تعلق نہیں تھا لیکن جو کام وہ کر گیا ہے وہ شاعری سے کچھ کم بھی نہیں ہے‘ اور اس کی یہ شاعری پاکستان چھوڑ‘ پوری دنیا کے انسانیت دوستوں کے لیے ایک مینارہء نور کی حیثیت رکھتی تھی‘ جبکہ یہ شاعری کی شاعری تھی اور عبادت کی عبادت‘ حالانکہ اسی طرح کے پودوں کے پھولنے پھلنے کے لیے ہمارے ہاں آب و ہوا ہی دستیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس جیسا سر پھرا کوئی اور پیدا نہیں ہو سکا ؎
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آج کا مقطع
یہ عشق وہ ہے کہ ہیں نااُمید ہر دو فریق
اور انتظار کسی کو‘ ظفر‘ کسی کا نہیں