ترکی میں بغاوت
ترکی میں بغاوت اور آمریت ناکام ہو گئی اور جمہوریت جیت گئی۔ عوام باغیوں کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے اور ٹینکوں پر پتھر اور لاٹھیاں برسائیں، اس لیے کہ ترکی کے حکمران کرپٹ اور نااہل نہیں ہیں۔ اگر ہمارے ہاں خدا نخواستہ یہ صورت حال پیدا ہو جائے تو لوگ ٹینکوں کو پھولوں سے لاد دیں گے کیونکہ عوام وہاں خود حاکم ہیں اور حکومت کے یرغمالی نہیں۔ بیشک ہماری حکومت کی شدید خواہش اور کوشش ہے کہ کسی بھی طرح اقتدار سے محروم کیے جانے کے بعد ایک بار پھر وہ شہید کی حیثیت حاصل کر لے اور ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے کا اسے موقع مل سکے حالانکہ اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو حکمرانوں کو شہادت کا درجہ حاصل نہیں ہو گا بلکہ ان سے کھایا پیا نہ صرف اگلوایا جائے گا بلکہ انہیں اس قابل بھی نہیں چھوڑا جائے گا کہ وہ اپنے مذموم ہتھکنڈوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نام نہاد انتخابات کا ڈھونگ رچا کر ایک بار پھر عوام کی گردنوں پر سوار ہو جائیں گے بلکہ خدا نے چاہا تو جیلوں میں ہوں گے اور ہر طرف سے یہی صدائیں آئیں گی کہ ہور چوپو!
توسیع
آرمی چیف کو توسیع دینے کا معاملہ بعض اطلاعات کے مطابق ایک بار پھر حکومت کے زیر غور ہے اور ان کے اندرونی مشیروں کی جانب سے وزیر اعظم کو اس پر قائل بھی کر لیا گیا ہے‘ تاہم اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ اگر پیشکش کی بھی گئی تو آرمی چیف اسے قبول کر لیں گے۔ حکومت کو اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ اسے اقتدار سے زبردستی محروم نہیں کیا جائے گا اور میعادِ حکومت پوری کرنے کا بھی مطلب یہ ہو گا کہ اس کے باوجود عوام کے مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے اور اس کے پاس یہ بہانہ بھی نہیں رہے گا کہ اسے اپنی میعاد پوری نہیں کرنے دی گئی۔ پاناما لیکس سے حکومت کی جو رسوائی ہو چکی ہے اور جو روز بروز زور بھی پکڑتی جا رہی ہے‘ اس کی وجہ سے یہ لوگ بے حد اور مسلسل دبائو میں رہیں گے جبکہ حکومت نے نہ تو اپنی نالائق ٹیم میں کوئی تبدیلی کی ہے اور نہ ہی کوئی نیا پروگرام‘ پلان یا پالیسی دی ہے بلکہ وزیر اعظم اسلام آباد آنے اور باقاعدہ کام شروع کرنے کی بجائے لاہور ہی میں دبک کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
یُوٹرن؟
عمران خان نے تحریک چلانے کے بجائے حکومت کے خلاف جو عدالتوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو حکومتی حلقوں کی طرف سے اسے ایک اور یوٹرن قرار دیا جا رہا ہے؛ حالانکہ تحریک کا ارادہ ترک نہیں کیا گیا ہے اور پاناما لیکس پر جوڈیشل کمشن بننے کے امکانات معدوم ہونے کے باعث ایک اور متبادل کے طور پر یہ راستہ اختیار کیا گیا ہے اور اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے انہیں مشکوک حکومت مخالف رویے اور ارادے زیادہ حوصلہ افزا نظر نہیں آ رہے ہیں کیونکہ وہ اس سلسلے میں زیادہ دورتک جانے کے لیے اس لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ پیپلز پارٹی کو انتخابات کے لیے ابھی مزید وقت درکار ہے اور وہ ایسی صورت حال پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہے کہ حکومت مجبور ہو کر نئے انتخابات کا اعلان کر دے اور دوسرے وہ اس حق میں بھی نہیں ہے کہ حکومت کے گرنے کے بعد سارا میلہ عمران خان ہی لوٹ کر لے جائے اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کی اپنی کچھ ایسی مجبوریاں بھی ہیں جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
سی پیک
اس گیم چینجر منصوبے کے حوالے سے راوی ہر طرح سے چین نہیں لکھتا جبکہ اس کے مغربی روٹ کے بارے میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے شدید تحفظات ہیں۔ بھارت اپنی جگہ اس کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے اور اب وہ اس سعیٔ نامسعود میں افغانستان کی مدد بھی حاصل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ چین بھی حکومت کی کارکردگی سے مطمٔن نہیں ہے جس کی وجہ بعض تعمیرات پر حکومت کی سست روی اور کرپشن کی شکایات ہیں‘ علاوہ ازیں بلوچستان کو گوادر پورٹ کے حقوق کے سلسلے میں تحفظات اور مطالبات ہیں۔ مغربی روٹ کے ضمن میں کے پی کا اعتراض اور اختلاف شروع ہی سے چلا آ رہا ہے کہ ایک تو یہ روٹ تبدیل کر دیا گیا ہے اور دوسرے اس روٹ پر تنصیبات کے سلسلے میں سرد مہری اور عدم توجہ کا ارتکاب کیا جا رہا ہے جس سلسلے میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے آج یا کل اے پی سی بھی طلب کر رکھی ہے اور ادھر متعلقہ وفاقی وزیر چودھری احسن اقبال کی طفل تسلیاں بھی متعلقہ فریقین کو مطمئن کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ سو یہ ہے اس گیم چینجر کی ایک دھندلی سی تصویر!
سرد مہری۔۔۔؟
ایک اخباری اطلاع کے مطابق وزیر اعظم نے کابینہ کے اجلاس کے دوران چوہدری نثار احمد خان کو پانچ بار نظر انداز کیا۔ چوہدری صاحب نے پانچ بار وزیر اعظم کی توجہ بعض معاملات کی طرف دلانے کی کوشش کی لیکن وزیر اعظم نے ایک بار بھی ان پر توجہ نہیں دی۔ بعد میں سب کے ساتھ کھانے پر گورنر ہائوس جانے کی بجائے چوہدری صاحب نے اسی کمرے میں بیٹھ کر کھانا کھا لیا۔ اسے کہتے ہیں الٹی گنگا بہنا۔ ایک وقت تو یہ تھا کہ چوہدری صاحب کئی بار وزیر اعظم کو نظر انداز کرتے پائے گئے اور خبریں آتی رہیں کہ وزیر داخلہ وزیر اعظم سے باقاعدہ روٹھے ہوئے ہیں اور لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بھی بنانا شروع کر دیں۔ ظاہر ہے کہ چوہدری صاحب کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے وزیر اعظم ان کی ناز برداریاں برداشت کرتے تھے جبکہ اب وہ صورت نہیں رہی کہ ایک تو وزیر اعظم شاید خود اس ادارے کے ساتھ ڈائریکٹ ہو گئے ہیں اور دوسرے ان کی حکومت رہے یا جائے وہ ہر صورت گھاٹے میں نہیں رہیں گے یعنی غازی یا شہید! ہیں جی؟
آج کا مطلع
سب سمجھتے ہیں کہ جس سے ملتا جلتا رنگ ہے
لاکھ تو کہتا پھرے میرا تو اپنا رنگ ہے