ایسی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو تو کسی کا دماغ خراب ہے جو اس سے لطف اندوز ہونے کی بجائے کالم لکھنے بیٹھ جائے۔ پھر بادلوں کا جادو اس کے علاوہ ہے؛ چنانچہ اسے ابر آلود ہوا کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہوا کو قرار نہیں اور یہ چوبیس گھنٹے چلتی رہتی ہے‘ چلتے چلتے تھک بھی جائے تو اسے رکنے کی اجازت نہیں ہے۔ غالباً ٹی ایس ایلیٹ کے ایک مجموعہ کلام کا نام ہے 'ہوائیں‘ اگر میں غلط ہوں تو کوئی صاحب براہ کرم اس کی تصحیح کر دیں‘ کیونکہ شاعرکا نام غلط ہو سکتا ہے‘ کتاب کا نہیں۔
آج آپ کے علم میں ایک اور بہت قیمتی اضافہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ جس بہت ہی چھوٹی سی چڑیا کا کچھ عرصہ پہلے ذکر کیا تھا‘ اس کا نام 'ہمنگ برڈ‘ ہے۔ کپڑے کی طرح یہ مختلف رنگوں میں ملے گی۔ آج جو چڑیا دیکھی اس کا سر اور نچلا دھڑ‘ اگر اسے دھڑ کہا جا سکتا ہے، پیلے رنگ کا تھا ‘پھر اسی نسل کی اور چڑیاں بھی ہیں جو نیچے سے آف وائٹ گرے یا موتیا رنگ ہی کہہ لیجیے۔ کبھی یہ شعر کہا تھا جو سراج منیر مرحوم کو بہت پسند تھا ؎
سبز میں گہرا گلابی‘ زرد میں کالا سیاہ
دیکھ ‘آنکھیں بند کر کے دیکھ ‘ کیسا رنگ ہے
لاء کالج میں قیام کے دوران میں نے اور افتخار جالب نے راوی کی طرز پر جو میگزین نکالا تھا اس میں محمد صفدر میر نے جو مضمون لکھا تھا وہ پنجابی بولیوں میں رنگ کے موضوع پر تھا۔ اس کی ایک بولی مجھے یاد رہ گئی ہے ؎
سانوں مسیا چ پَین بُھلیکھے
تیری وے سندھوری پگ دے
افتخار جالب نے مجھ سے فرمائش کی تھی کہ پرچے میں اس کا نام ایڈیٹر کے طور پر آئے حالانکہ سارا کام میرے سپرد کیا گیا تھا‘ میں مان بھی گیا تھا لیکن میں نے اپنے عہد سے روگردانی کی اور اسے نائب مدیر رکھا۔
میرے ایڈیٹرانہ کیریئر میں یہ اعزاز بھی شامل ہے کہ ''سویرا‘‘ کے ایک شمارے کی ادارت بھی میں نے کی تھی جبکہ میرے ساتھ محمد سلیم الرحمن اور ریاض احمد تھے۔ اسی پر بس نہیں‘ میں نے اور احمد سلیم نے ''کُونج‘‘ کے نام سے ایک پنجابی پرچہ بھی نکالا تھا۔ اس کے علاوہ اکادمی کے رسالے 'ادبیات‘ کا ایک شمارہ بھی میری ادارت میں شائع ہوا تھا جبکہ میرے ساتھ ابرار احمد تھے۔ کافی عرصے سے آفتاب اقبال کے ماہانہ جریدے ''حسب حال‘‘ کی سرپرستی فرما رہا ہوں جبکہ کسی زمانے میں اس کا ایڈیٹر بھی رہا ہوں۔ آج کل اس کا ایڈیٹر میرا چھوٹا بیٹا جنید اقبال ہے۔
جنید سے متعلقہ ایک یادگار واقعہ یہ ہے کہ جب وہ گورنمنٹ کالج کا طالب علم تھا تو اس کے دل میں ''راوی‘‘ کا ایڈیٹر ہونے کی دھن جو سمائی تو اس نے مجھے کہا کہ صابر لودھی صاحب سے کہہ کر، جو اس پرچے کے مدارالمہام تھے، اسے ایڈیٹر بنوا دوں۔ میں اگر لودھی صاحب سے کہتا تو وہ ایسا ضرور کر بھی دیتے لیکن میں نے چونکہ زندگی میں کسی سے اپنے لیے کبھی سفارش کروائی اور نہ خود کسی کے لیے کی‘ اوپر سے میں نے ستم ظریفانہ کام یہ کیا کہ اس موضوع پر جو کالم لکھا اس کا عنوان تھا ''سوری! برخوردار جنید اقبال!‘‘ حالانکہ یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں اس کا ''حکم‘‘ اس طرح ٹال بھی سکتا ہوں۔ میرا ایک خیال یہ بھی تھا کہ اگر وہ اس چکر میں پڑ گیا تو ایم اے نہیں کر سکے گا‘ جو وہ ویسے بھی نہ کر سکا‘ اس لیے بہتر ہوتا کہ میں اس کی سفارش کر ہی دیتا۔
اوپر جس ننھی منی چڑیا کا ذکر آیا ہے‘ اس نے ایک کرتب یہ دکھایا کہ اڑتے اڑتے فضا میں معلق ہو گئی یعنی پر باقاعدہ پھڑ پھڑا رہی تھی ۔کچھ چھوٹے پرندے اور بھی ہوں گے جو ایسا کرتے ہوں گے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی موسم کا مزہ لے رہی تھی ورنہ اڑ بھی رہی تھی اورکہیں آ جا بھی نہیں رہی تھی۔ لیجیے بوندا باندی بھی شروع ہو گئی ہے یعنی میری واک غارت ہونے سے بچ گئی ‘ جیسے بارش کو انتظار تھا کہ اس کا ایک شیدائی جب تک واک سے فارغ نہ ہو لے اُسے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں ہے ۔اردو اور انگریزی کے 45 سالہ استاد پروفیسر ندیم اصغر اوکاڑہ سے اکثر یاد کرتے رہتے ہیں۔ آج بتا رہے تھے کہ وہ گزشتہ پچیس سال سے حالت ظفرؔ میں ہیں اور یہ کہ ظفر اقبال ان پر بیتتا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو انہیں اپنی صحت کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔ بتاتے ہیں کہ وہ بھارت جاتے رہتے ہیں اور وہاں میری بدنامیاں یہاں سے بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ لوگ میرے حق میں بھی ہیں اور خلاف بھی۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہ مخالفین زیادہ ہیں یا موافقین۔ میرے خیال میں اس کا پتا چلنا بھی نہیں چاہیے جبکہ میں خود مخالفین ہی کے حق میں ہوں اور الحمد للہ کہ میں خود کبھی حالت ظفرؔ میں نہیں رہا کیونکہ اپنے آپ کو ہر طرح کے آسیب سے بچا کر رکھنا چاہتا ہوں۔ سو‘ بارش اور کالم کی چھٹی دونوں کا مزہ لے رہا ہوں۔کالم کی چھٹی اس لیے بھی ضروری ہے کہ آخر یہ کہاں لکھا ہے کہ آدمی ہر روز ہی قاری کے دماغ پر سوار رہے یعنی خود بھی دم لینا چاہیے اور اس نعمت سے قاری کو بھی سرفراز ہونے کا موقع ملنا چاہیے اور اسی فراغت میں اپنے آپ کو اپنی ایک تازہ غزل بھی سنانا چاہتا ہوں کہ فارغ اوقات میں بھی آدمی کو کچھ کرنا ہی چاہیے :
عاشقانہ چل رہا ہے ... والہانہ چل رہا ہے
آپ کے دم سے ہمارا ... آب و دانہ چل رہا ہے
روک رکھا ہے ہمیں تو ... خود زمانہ چل رہا ہے
عمر بھر سے اک تعلق ... غائبانہ چل رہا ہے
ظلم سب پر ہے برابر ... منصفانہ چل رہا ہے
کام آگے ہے نہ پیچھے ... درمیانہ چل رہا ہے
عذر کچھ معقول بھی ہے ... کچھ بہانہ چل رہا ہے
فیس تولے لی ہے پوری ... منشیانہ چل رہا ہے
شعر کا کیا پوچھتے ہو ... کارخانہ چل رہا ہے
آج کا مطلع
میدان تھے جہاں وہاں جنگلے جنگل ہوئے
جھاڑاں گلاب تھی گئے، کیکر صندل ہوئے