وزیر اعظم کا بیان چھپتا ہے کہ پاکستان کو تمام مذاہب کے لیے محفوظ بنائیں گے اور ساتھ ہی یہ خبر بھی کہ کوئٹہ کے نواح میں دو موٹر سائیکل سواروں نے دوسرے فرقے کے دو اشخاص کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ ساتھ ہی یہ بیان بھی کہ 2018ء تک بجلی کا بحران ختم کر دیں گے اور یہ وہی بحران ہے جسے عام انتخابات کے موقعہ پر چھ ماہ میں ختم کرنے کا وعدہ اور دعویٰ کیا گیا تھا۔ ایک اور بیان بھی کہ ملک میں ترقی کی رفتار کو جاری رکھیں گے اور جس کے ساتھ ہی یہ رپورٹ بھی کہ نندی پور پاور پراجیکٹ اب بھی سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہا ہے۔ علاوہ ازیں ایک رپورٹ یہ بھی کہ حکومت کئی کھرب روپے کی سال رواں میں مقروض ہو چکی ہے اور روزانہ کم و پیش 5ارب 70 کروڑ روپے قرض لے رہی ہے اور آج ہی رپورٹ ہونے والی چند مزید روح افزا خبریں اور بھی کہ دانش سکولوں میں 75کروڑ 91لاکھ روپے کی بدعنوانیوں کا انکشاف ہوا ہے جس پر سپریم کورٹ نے تین ماہ میں ذمہ داروں کے خلاف نیب کو کارروائی کا حکم دیا ہے اور 35کروڑ کے گھپلے میں ملوث گریڈ 18کا افسر سیکرٹری ٹیکسٹ بک بورڈ پنجاب تعینات کر دیا گیا ہے اس کا سنگین الزامات پر وزیر اعلیٰ نے نوٹس لیا تھا اور انکوائری کے بعد سیکرٹری انرجی ڈیپارٹمنٹ آفس سے گرفتار ہو کر دو ماہ
حوالات میں رہے‘ معطلی کے روز دوبارہ بحالی‘ نوٹیفکیشن بھی جاری‘ تعلیمی حلقوں میں بے چینی‘ اس کے ساتھ ہی سول سیکرٹریٹ کی تزئین و آرائش میں وسیع پیمانے پر گھپلوں کی خبر جس کی محکمہ انٹی کرپشن نے رپورٹ مانگ لی ہے۔ اور‘ ایک فاش غلطی کے تحت اسلم کمبوہ کو سیکرٹری لوکل گورنمنٹ تعینات کر دیا گیا ہے حالانکہ انہیں کہیں او ایس ڈی وغیرہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ یہ پرلے درجے کے اپ رائٹ اور درویش منش افسر ہیں جو کئی سال پہلے ہمارے ضلع اوکاڑہ میں ڈی سی او رہ چکے ہیں جبکہ حکومت ایسے افسروں سے الرجک ہے اور کرپٹ اور نااہل افسر ہی اس کی آنکھ کا تارا ہیں۔وزیر اعظم نے یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ ٹی او آرز کے سلسلے میں پیش رفت کی جائے جن کی اصلیت یہ ہے کہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کی طرح یہ بھی مستقل ڈیڈ لاک کا شکار ہو چکے ہیں بلکہ اگر انہیں مردہ گھوڑا کہا جائے تو زیادہ درست ہو گا جبکہ اپوزیشن کے مطابق حکومت اس سلسلے میں چکر پہ چکر دیتی چلی آ رہی ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر باہر بھیجا جانے والا روپیہ ناجائز نہیں تھا‘اگر وزیر اعظم نے
منی لانڈرنگ نہیں کی‘ اگر انہوں نے ٹیکس چوری نہیں کی‘ اگر انہوں نے الیکشن کمیشن سے اثاثے نہیں چھپائے تو احتساب کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بن کر کیوں کھڑے ہیں۔ اوپر کرپشن کی جو مثالیں دی گئی ہیں وہ صرف ایک دن کی خبروں سے ماخوذ ہیں سوال یہ ہے کہ اگر حکمران کرپٹ نہیں ہیں تو ان کی ناک کے عین نیچے تھوک کے حساب سے یہ کرپشن کیسے ہو رہی ہے۔ ایک پٹھان نے اپنے دوست سے کہا کہ اس پنکھے کے نیچے آ کر بیٹھو‘ اس کی ہوا لینا ثواب کا کام ہے۔ دوست نے وجہ پوچھی تو خاں صاحب بولے یہ ہم مسجد سے اتار کر لایا ہے! سو‘ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کرپشن بھی کار ثواب سمجھ کر کر رہی ہے حکمران اگر کرپٹ نہ ہوں تو نیچے والوں کی مجال نہیں کہ اس کے نزدیک بھی پھٹک کر دکھا دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کا فوکس اب کرپشن پر ہے جس پر حکومتی ارکان خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں کہ اب وزیر اعظم پر سے ان کی توجہ ہٹ گئی ہے حالانکہ ایسا کرنے سے وزیر اعظم زیادہ زیر ہدف ہو گئے ہیں۔ اور وزیر اعظم کو آرمی چیف کے حوالے سے جو بخار چڑھا ہوا ہے وہ الگ ہے کہ ان کو توسیع دینی ہے یا نئے آرمی چیف کا اعلان کرنا ہے۔
اور اب خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل:
کوئی بھی شے کسی شے سے نکال سکتا ہوں
کسی بھی شے میں کوئی چیز ڈال سکتا ہوں
تمہاری یاد کہیں پر پڑی نہ رہ جائے
میں اپنا آپ کسی دن کھنگال سکتا ہوں
ہیں دوسرے شُرفا میری دسترس سے تو دُور
ابھی تو اپنی ہی پگڑی اُچھال سکتا ہوں
ہمیشہ تو نہیں محتاج ہوں اِن آنکھوں کا
ٹٹول سکتا ہوں اور دیکھ بھال سکتا ہوں
نشے میں ہوں مگر اتنا بھی ناتواں نہیں میں
میں گرتے گرتے تجھے بھی سنبھال سکتا ہوں
اگر پسند نہیں ہے یہ کاروبار تو میں
تجھے اک اوربھی سانچے میں ڈھال سکتا ہوں
یہ دل کی آگ ترے کام کی نہیں ہے اگر
میں اس سے اپنا لہو تو اُبال سکتا ہوں
لگی ہوئی سہی بیماریاں بہت مجھ کو
میں تیرا روگ بھی کچھ روز پال سکتا ہوں
جمے ہوئے ہیں مرے پائوں اس زمین پہ‘ظفرؔ
میں سر پہ آئی مصیبت بھی ٹال سکتا ہوں
ایک موصولہ ایس ایم ایس کے مطابق اس بار حلقہ ارباب ِ ذوق کے اجلاس میں پروگرام ''کبیرا کھڑا بازار میں‘‘بھی پیش کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ دوہا بھگت کبیر کا نہیںبلکہ تُلسی داس کا ہے جو اس طرح ہے ؎
تُلسی کھڑا بجار ماں مانگے سب کی کَھیر
نا کاہُو سے دوستی‘ نا کاہُو سے بَیر
کیونکہ کبیرا تو مصرعے کے شروع میں وزن کے لحاظ سے آتا ہی نہیں۔
آج کا مطلع
سراسر ختم ہو کر بھی جوانی اور باقی ہے
ابھی خوابِ ہوس کی رائگانی اور باقی ہے