ایک اخباری اطلاع کے مطابق وزیراعظم کی نااہلی کے لیے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے تیار کردہ ریفرنس نے نواز حکومت کے لیے صحیح معنوں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے جس میں آئین کے آرٹیکل 5 کے خصوصی حوالے سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وزیراعظم وطن دشمن ہیں اور یہ ریفرنس عمران خان‘ ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید کے ریفرنسز سے قطعاً مختلف بتایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ ریفرنس دائر کرنے کے لیے سپیکر سردار ایاز صادق سے وقت لیے جانے کے باوجود ان کے وکیل کو اندر نہیں جانے دیا گیا جبکہ عمران خان کے خلاف ریفرنس آنے پر صاحب موصوف نے پورے میڈیا کو دعوت دے رکھی تھی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ ایک اہم دستاویز کے ذریعے ثبوتوں کے ساتھ وزیراعظم کی وطن دوستی پر انتہائی سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے ہیں حالانکہ وزیراعظم کی رنگارنگ کارگزاری اس سلسلے میں پہلے ہی شکوک و شبہات کو جنم دے رہی تھی لیکن کوئی کھل کر بات نہیں کرتا تھا اور مصلحتاً یا خوف کی وجہ سے کوئی اس مسئلہ پر زبان نہیں کھولتا تھا ورنہ دشمن ملک بھارت کے ساتھ پیار محبت کی پینگیں بڑھانے کے ساتھ ساتھ جو کچھ اس بدنصیب ملک کی حالت کر دی گئی تھی اور اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا تھا اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں روزانہ دو ارب روپے کی کرپشن کی جا رہی ہے اور اسی حساب سے روپیہ ملک سے باہر منتقل کیا جا رہا ہے اور قرضے لے لے کر ملک کو مفلوج کیا جا رہا تھا جبکہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق حکومت نے بیرونی قرضوں کے علاوہ سٹیٹ بینک سے بھی بھاری قرض لینا شروع کر دیا ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مرکزی بینک سے قرض لینے کے باعث مہنگائی کا طوفان برپا ہو سکتا ہے۔
ملک سفارتی لحاظ سے جس بربادی اور تنہائی کا شکار ہو چکا ہے اس کی ایک وجہ کل وقتی وزیر خارجہ کا نہ ہونا تو ہے ہی سفارت کاروں کی غیر دانشمندانہ تعیناتی اور ذاتی پسند پر انحصار اس تازہ خبر سے ظاہر ہے جس کے مطابق مختلف محکموں میں اپنی ذاتی پسند کے افسران تعینات کرنے کے علاوہ خارجہ امور کی تعیناتیوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور پچھلے تین سالوں میں غیر پیشہ ور افراد کو محض سیاسی بنیاد پر تعینات کیا گیا اور قومی اسمبلی کو اگلے دن بتایا گیا کہ نوازشریف نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے امریکہ اور چین جیسے ملکوں کے لئے ایسے غیر پیشہ ور افراد کو سفارتی عہدوں پر فائز کیا جنہیں سفارت کاری اور خارجہ امور کا کوئی تجربہ حاصل نہ تھا اور جو فارن سروس سے متعلقہ ہی نہیں تھے۔ وجہ یہ کہ آپ اپنے آپ کو عقل کُل سمجھتے ہیں اور کسی سے مشورہ کرنا کسرشان گردانتے ہیں؛ چنانچہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہماری سفارتی کارگزاری پر کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ غلط بیانی اور دورغ گوئی پر مبنی فریب کاری کا عالم یہ ہے کہ اگلے روز خادم اعلیٰ نے بڑے دھڑلے سے اعلان کیا تھا کہ ساہیوال کول پاور پلانٹ اپنی مقررہ مدت سے بہت پہلے مکمل ہو رہا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ایک سال گزر گیا ہے مگر اس منصوبہ کا پچاس فیصد بھی مکمل نہیں ہو سکا جبکہ 650 میگاواٹ کے دوسرے پاور پلانٹ پر کام ابھی شروع ہی نہیں ہو سکا جبکہ کوئلہ پہنچانے کے لیے ریلوے لائن ناکافی ہے۔ یاد رہے کہ کول پاور پلانٹس کے سلسلے میں وقت سے پہلے ہی ایسے خدشات کا اظہار کر دیا گیا تھا کہ یہ غیر حقیقی اور ناممکن العمل ہیں، اس سے خارج ہونے والی گیس اور دھواں عوام اور فصلوں کے لیے نہایت نقصان رساں ہیں جبکہ چین میں ان کی وجہ سے سینکڑوں اموات بھی واقع ہو چکی ہیں اور وہاں پر یہ پلانٹس ختم کر دیئے گئے ہیں لیکن کسی کی ایک نہ سُنی گئی۔
ایک اور بہت بڑا فراڈ جسے مسلسل پوشیدہ رکھا جا رہا ہے اور وہ ہے اقتصادی راہداری کا منصوبہ جسے چھوٹے صوبوں کے مسلسل احتجاج کے باوجود خفیہ رکھا جا رہا ہے اور ہزار اصرار کے باوجود اسے نہ صرف قومی اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا بلکہ سینیٹ کے زور دینے پر اتنی اجازت دی گئی کہ صرف چیئرمین سینیٹ اسے ملاحظہ کر سکتے ہیں یا ان کے چیمبر میں آ کر ارکان بھی۔ وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ جہاں جہاں سے یہ راستے گزریں گے جن پر صنعتی زون وغیرہ قائم کئے جائیں گے انہیں اس لیے خفیہ رکھا جا رہا ہے کہ ان کے اردگرد کی زمینیں حکومت اور اس کے مصاحبین خرید سکیں جو کہ بعد میں سو گنا سے بھی زیادہ مہنگی ہو جائیں گی جنہیں اب اونے پونے خریدا جا سکتا ہے۔ یہ ان حکمرانوں کا پرانا طریقہ واردات ہے اور یہ پہلے بھی ایسا کرتے رہے ہیں کہ آس پاس کی زمینیں خرید لیں اور بعد میں ان علاقوں کو صنعتی زون قرار دے دیا گیا جو کہ غریب کسان کو لوٹنے کا ایک انوکھا طریقہ ہے جس کے پلے پہلے ہی کچھ نہیں رہنے دیا گیا۔ اقربا نوازی کا عالم یہ ہے کہ بڑے پراجیکٹس کے لینڈ سکیپنگ کے سارے ٹھیکے وفاقی وزیر چوہدری احسن اقبال کے بھائی کو دیے گئے ہیں جس کی کوئی تردید بھی ابھی تک سامنے نہیں آئی اور یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جبکہ سی پیک بھی چوہدری صاحب ہی کا فکر ہے! اب آتے ہیں وزیراعظم کی وطن دوستی کے سب سے بڑے مظہر یعنی ایکشن پلان کی طرف۔ ملک میں دہشت گردی جس انتہا کو پہنچ چکی ہے، ایکشن پلان پر خاطر خواہ عمل نہ ہونا اس کی سب سے بڑی وجہ ہے اور جس کا رونا خود آرمی چیف نے رویا ہے اور کہا ہے کہ اس پر عمل نہ ہونے سے ضرب عضب پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں اور اگر صورت حال یہی رہی تو دہشت گردی پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا۔ واضح رہے کہ اس ضمن میں بنیادی نکات پر عمل کیا ہی نہیں گیا جس میں خود حکومت ذمہ دار ہے اور جس کے حوالے سے پریس میں عرصہ دراز سے واویلا بھی مچایا جا رہا ہے کہ شریف برادران دہشت گردوں کے لیے شروع سے ہی دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں کیونکہ ان کے ووٹ بینک کا بڑا حصہ انہی پر مشتمل ہے اور یہ ملک کی قیمت پر بھی اس اصول سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں جو کچھ کرنا وفاقی حکومت کے ذمے تھا اس میں کوئی پیشرفت نہ ہوئی اور یہ سرطان جسد وطن میں پھیلتا چلا گیا۔
سو‘ وزیراعظم کی کوئی بھی پالیسی اور کارکردگی اٹھا کر دیکھ لیں‘ اس میں وطن دوستی کا جذبہ انتہائی مشکوک نظر آئے گا اور ملک کی جو حالت ہو چکی ہے یہ سب اسی کا شاخسانہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ سابق چیف جسٹس کے وکلاء کو ریفرنس دائر کرنے کے لیے سپیکر صاحب تک رسائی ہی دستیاب نہیں ہو رہی۔ ادھر یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے بھی زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ تک پہنچتا دکھائی دیتا ہے اور یہ بات برملا کہی جانے لگی ہے کہ ملک اور نوازشریف ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ فاعتبروا یا اُولوالابصار۔
آج کا مطلع
کیا پوچھ رہے ہو نام اُس کا
بس دیکھتے جائو کام اُس کا