"ZIC" (space) message & send to 7575

گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

قصہ پرانا ہے اور رپورٹ نئی‘ جس کے مطابق نیب وزیر اعظم کے خلاف کرپشن مقدمات پر اس طرح بیٹھی ہوئی ہے جیسے مُرغی انڈوں پر‘ کرپشن کی 17انکوائریاں وزیر اعظم کے خلاف دو دہائیوں سے معلق ہیں۔ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود ان پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم کے خلاف کرپشن مقدمات کی تکمیل میں اس بے جواز تاخیر نے نیب کی شہرت کو بری طرح سے متاثر کیا ہے اور اس طرح اس کا اختیار معرض سوال میں آ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیب اپنی بقا کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے وزیر اعظم کے خلاف الیکشن کمیشن میں دائر کردہ ریفرنسز میں بھی ان انکوائریوں کا مواد شامل ہے جن میں وزیر اعظم کی طرف سے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال بھی شامل ہے۔ سپریم کورٹ بار بار چیئرمین نیب کو ان کی تکمیل کے لیے کہہ چکی ہے لیکن ان کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔ دستیاب دستاویزات کے مطابق قرضہ سکینڈل کی ایک انکوائری نیب کے پاس 2000ء سے پڑی ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے نیب کو ہدایت کی تھی کہ پاکستانی بینکوں سے شریف فیملی کی طرف سے وزیر اعظم کے ذاتی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے قرضوں کی پڑتال کرے۔ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ شریف فیملی نے اپنے37صنعتی یونٹس کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے مختلف پاکستانی بینکوں سے 24ارب روپے قرض لیے جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ معلوم کیا جائے کہ آیا یہ قرضے ضابطوں کی پاسداری کرتے ہوئے لیے گئے۔
ایک اور کیس میں ان پر امریکہ اور کینیڈا سے گندم درآمد کیس میں 58ملین روپے اپنی جیب میں ڈالنے کا الزام ہے۔ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک قریبی دوست کی ملکیتی پرائیویٹ کمپنی کے ذریعے مہنگے داموں گندم درآمد کرائی اور اس کے ذریعے پیسہ بنایا۔ ایک اخبار نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس طرح غریب پاکستانیوں کا خون چوستے ہوئے اس میں لاکھوں ڈالر کمائے گئے۔ بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکس چوری کا ایک مقدمہ بھی زیر التوا ہے۔ اس مقدمہ میں وزیر اعظم کے خلاف اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے سرکاری خزانہ کو ایک بڑا نقصان پہنچایا گیا۔ نیب کے پاس ابھی ایک اور زیر تکمیل انکوائری ہے جو انہیں ایک ہیلی کاپٹر کیس میں ملوث کرتی ہے جو پچھلے کئی سالوں سے زیرِ التوا رہے۔
ایک ریٹائرڈ ملٹری آفیسر کا وزیر اعظم کے خلاف نیب میں ایک اور معاملہ زیر التوا ہے جس میں وزیر اعظم پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ایف آئی اے میں اپنے منظور نظر درجنوں لوگوں کو میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعینات کیا لیکن نیب نے ابھی تک اس سلسلے میں بھی کوئی پیش رفت نہیں کی ہے۔ اسی طرح کی ایک اور انکوائری جو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز میں سیاسی تعیناتیوں کے ضمن میں نیب میں دیر سے زیر التوا ہے۔ ماضی میں نیب نے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم اور سپیکر قومی اسمبلی سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف اسی طرح کی انکوائریاں مکمل کیں جس میں وہ سزا یاب ہو کر کئی سال جیل میں رہے۔ تاہم نیب وزیر اعظم کے خلاف کسی پیش رفت کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے بار بار نیب پر یہ تنقید کی ہے کہ وہ جانبدار ہے اور ایک داغدار ریکارڈ کی حامل ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے نیب کو ہدایت کی تھی کہ رائیونڈ اسٹیٹ کی ڈویلپمنٹ میں سرکاری خزانے کے غلط استعمال کے معاملہ کو دیکھے جس کا شریف فیملی کے ہاتھوں ارتکاب ہوا لیکن اس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اسلام آباد موٹر وے کرپشن سکینڈل کی انکوائری بھی نیب کے پاس گزشتہ کئی برسوں سے زیر التوا ہے۔ الزام لگایا گیا ہے کہ اس پراجیکٹ سے وزیراعظم نے 160ملین روپے کمائے جبکہ ہالیڈے ان سکینڈل‘ ٹیکس سکینڈل‘ کوہِ نور انرجی سکینڈل اور غیر قانونی ترقیوں کا سکینڈل بھی گزشتہ کئی سالوں سے زیر التواء ہیں۔ نیب چیئرمین چودھری قمر زمان نے پچھلے ہفتے سپریم کورٹ کے احاطہ کے باہر میڈیا کو بتایا کہ نیب شریف فیملی کے خلاف کرپشن مقدمات کی تحقیقات کر رہا ہے اور وہ اس کی رپورٹ جلد ہی سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں گے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
ہم سفروں کی علیحدگی
پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہُوا ہے کہ حکمران پارٹی کے ہم جلیس ارکان اسمبلی رفتہ رفتہ اس سے علیحدہ ہو رہے ہیں۔ سندھ کے ممتاز علی بھٹو نے نواز لیگ کے ساتھ اتحاد ختم کر کے اپنے سندھ نیشنل فرنٹ کو بحال کر دیا ہے اور عبدالحکیم بلوچ نے‘ جو سندھ سے واحد رکن قومی اسمبلی ہیں ‘ وفاقی وزیر مملکت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
مسٹرممتاز بھٹو نے 2000ء میں اپنی پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ کو نواز لیگ میں مدغم کیا تھا جنہیں سندھ میں اہم کردار ادا کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ بعد میں غیر متوقع طور پر سندھ کی سیاست تبدیل ہوئی تو نواز لیگ مسٹر بھٹو کی توقعات پر پورا نہ اتری اور انہوں نے اپنی پارٹی کا مذکورہ اتحاد ختم کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے ہمارے ساتھ جو وعدے کیے تھے ان میں سے ایک بھی پورا نہ ہوا کہ حکومت کا بزنس اور فریم ورک قرار دادِ پاکستان اور صوبائی خود مختاری کے ذریعے چلایا جائے گا۔ انہوں نے میرے بیٹے امیر بخش کو مشیر ضرور بنایا لیکن عوام کی خدمت کے لیے اُسے کوئی اختیار نہ دیا گیا۔ اس طرح عبدالحکیم بلوچ کو بھی بُری طرح نظر انداز کیا گیا۔ انہیں وفاقی وزیر مملکت تو بنایا گیا لیکن کسی بھی طرح کے اختیارات سے محروم رکھا گیا۔ چنانچہ وہ مستعفی ہو چکے ہیں اور اپنی آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں سوچ رہے ۔جبکہ ان کے بیٹے نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور جلد ہی کسی نئی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں گے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اگلے روز انہوں نے کہا کہ نواز لیگ صرف مرکز میں پنجاب اور ہزارہ ڈویژن تک محدود ہے اور کسی بھی اور صوبے کی لیڈر شپ کو کسی اہم فیصلے میں شامل نہیں کیا جاتا۔ فیصلے ذاتی اور اندرونی اجلاسوں میں کیے جاتے ہیں اور جملہ اختیارات صرف چند افراد تک محدود ہیں۔ اطلاعات کے مطابق نیشنل پیپلز پارٹی بھی نواز لیگ کے ساتھ اپنے ادغام کو ختم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر مرتضیٰ جتوئی کا‘ جواین پی پی کے چیئرمین بھی ہیں‘ کہنا ہے کہ نواز لیگ کی پالیسیاں مختلف صوبوں کے لیے مختلف ہیں! ع
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے سامان اُتارا کرتے ہیں
آج کا مطلع
اگرچہ مہر بہ لب ہوں، سنائی دے رہا ہوں
کہ ہوں کہیں بھی نہیں اور دکھائی دے رہا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں