اچھو میاں لو اور سنو‘ حضرت رئیس امروہوی کی ایک خواہش یہ بھی تھی کہ ہند یاترا کے لیے جا رہا ہوں‘ دیکھو شکیل اور جون ملنے نہیں آئے‘ میں دل ہی دل میں سوچتا رہا کس برتے پر کہہ رہے ہیں آپ کہ وہ آتے۔ شکیل عادل زادہ آپ کے مرحوم دوست عادل ادیب کے بیٹے۔ عادل ادیب کے ماہنامہ''مسافر‘‘ مراد آباد میں ملازم بھی تو رہ چکے ہیں آپ۔ شکیل عادل زادہ آپ کے ہاں کراچی میں کہنا چاہیے پلے بڑھے ہیں ۔گھر کے ایک فرد بلکہ آپ کے بیوی بچوں کے نگہبان۔ آ پ کو تو معلوم ہی ہے بیگم سید محمد تقی صاحب اور کچھ کالج کے لوگوں کی وجہ سے بیگم رئیس اور رئیس صاحب میں ناچاقی ہو گئی تھی ان بن ہوئی تھی تب بیگم رئیس چاروں بچیوں اور شکیل کو لے کر کھارادر کے فلیٹوں میں منتقل ہو گئی تھیں۔ شکیل نے پوری ذمہ داری سے گھر کی اور ''انشاء‘‘ جو آگے چل کر عالمی ڈائجسٹ بن گیا دونوں کی نگہداشت کی۔ برسوں کا میل جول اور رہن سہن متاثر کیے بغیر نہیں رہتا‘ ہم سنوں سے موانست ہو ہی جاتی ہے‘ ہم عمروں میں مناسبت ہو ہی جاتی ہے۔ شکیل کی تمنا اگر کوئی تھی تو یہی کہ رئیس مجھے اپنی غلامی میں لے لیں۔ رئیس تو انکار کیا کرتے‘ بیگم صاحب نے چوہڑا چمار بتا کر دھتکار دیا اور یہ شکیل کے حق میں بہت مبارک ہوا۔ بوریا بستر سنبھال ‘ ایک ماہنامے کا ڈول ڈالا جا کر۔ سب رنگ کے رنگ ہر طرف بکھر گئے وہ وہ قلمی جوہر دکھائے کہ لوگوں کو سب رنگ ہو گیا کس بلا کے لیکھک ہیں شکیل‘ یہ سب رنگ پڑھنے والوں سے پوچھیے۔ کہانیوں میں بے پناہ تسلسل ایک سے بڑھ کر ایک سلسلہ۔ شکیل کہتے ہی رہے ''مِس کر رہے ہو‘‘ لیکن میں نے فکشن پر صرف سب رنگ کے اداریوں ہی کو ترجیح دی۔ خوب لکھے ادارئیے بھی‘ یہاں تو روزنامے ایک لاکھ نہیں چھپتے‘ اس ماہنامے نے یہ بھی کر دکھایا۔ شکیل کے فطری جوہر خوب کھل کر سامنے آئے ‘ ہاں بتائیے بھلا ایک دھتکارے ہوئے انسان سے یہ توقع کہ آپ کے رخصتی سلام کے لیے پہنچے گا‘ کیونکر ممکن تھا۔ دو دو برس تو آمنا سامنا ہی نہیں ہوتا۔ شکیل اپنی گھریلو اور دفتری ذمہ داریوں میں منہمک ‘ کوئی اخلاقی جذباتی ربط ہی نہ رہا۔ اس کے باوجود اس آدمی سے دربار داری کی امید ہمارے پلّے تو پڑی نہیں۔ رہا جون ایلیا کا مسئلہ وہ تو کہتے ہیں کلیم میں ملنے والا وسیع و عریض مکان برادران یوسف کی بندر بانٹ کی نذر ہو چکا ہے۔ رئیس صاحب اور تقی صاحب نے اپنے اپنے مکان تعمیر کر کے ہم دونوں کو جائیداد سے محروم کر دیا۔ بھلا عباس جانیں اور وہ جانیں ‘ میں تو اپنا حق لیے بغیر دم نہ لوں گا۔ حق تلفیوں کی کہانی اب تو اس قدر عام ہو چکی ہے کہ انور مقصود نے ایک ٹی وی مزاحیہ مشاعرے میں ہو بہو شاعر جون ایلیا کی زبانی یہ شعر بھی سنوائے ؎
مُرغ و شُتر کے درمیاں گائیں رہیں نہ بکریاں
میرے تمام چارہ گر گھر میں جو تھا وہ چر گئے
کیسا پسندہ کیا پسند کس سے کہیں اے ارجمند
میرے تمام بھائی بند میرا کباڑہ کر گئے
صورت حال یہ ہو تو اس کا مطلب ہے ہمارے ممدوح حضرت رئیس جان کر انجان بنتے ہیں یوں بھی تو حضرت اپنی ہوا باندھنے کے لیے اس قسم کے شوشے لوگوں کے کانوں میں چھوڑتے ہی رہتے ہیں۔ غیر متعلق آدمی تو ظاہر ہے خورد ہونے کی رعایت سے شکیل اور جون ہی کو گردن زدنی قرار دے گا۔ گزشتہ تیرہ برسوں میں اپنے گائوں اور قرب و جوار کے چھوٹے موٹے جھگڑے چکانے کا بارہا موقع ملا۔ الگ الگ دسیوں ٹولیاں ہزاروں قصے آپ کو سنا دیں گی لیکن جب بات دو بدو تک پہنچے گی تو بالکل الٹ مسائل کا سامنا ہو گا اور بہت کم وقت میں ان کا حل بھی نکل آئے گا‘ نہ بات کا بتنگڑ بنے گا نہ رائی کا پہاڑ۔ بتا تو رہا ہوں بھائی میں تو آگے پیچھے سبھی کچھ بتائوں گا۔ دیر سویر کیوں ‘ لگے ہاتھوں قلم بند کرتے چلیں‘ کیا مضائقہ ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہے میں تو جزئیات تک بیان کروں گا‘ بال کی کھال تک اترے گی جناب‘ حال احوال سرسری سننا نہ آمینداجی پسند کرتے ہیں نہ حافظ عبدالحکیم نہ منشی کریم بخش میر بحراور یہ ہمارے صاحبزادگان اور ابوالکلام ابو الحسن اور ابو الفضل کو بھی تو محظوظ ہونا ہے۔ ایک ہی سانس میں سنانے کی کوشش کرتا ہوں‘ ہضم کرنا آپ کا کام ہو گا۔ پہلے ایک لطیفہ سنو‘ ہماری اور رئیس صاحب کی لڑائی ہو گئی۔ لڑائی ہو گئی ‘ ہاں بھئی ہو گئی‘ یہ کیا یک زبان ہو کر چلائے آپ لوگ‘ بس ہو گئی لڑائی‘ خیر یہ آگے چل کر بتائیں گے۔ پہلے یہ سنو‘ تمہیں تو سب معلوم ہے سراج میاں سرواہی میں تحصیل صادق آباد سعودی عرب سدھار رہے تھے تو میرا کراچی تک جانا بہر حال ضروری تھا۔ شرم تو آئی لیکن میں تم سب نے دیکھا ہی تھا سراج میاں ہی کی موٹر میں بیٹھا اور کراچی چل دیا۔ سراج میاں کے کاغذات ادھورے نکلے ‘ پلٹنا پڑا لیکن مجھے اس ایک ڈیڑھ روزہ قیام کے دوران میں حضرت رئیس امروہوی کے اصرار نے گومگو میں ڈال دیا‘ ہمارے ساتھ چلے چلو ہندوستان‘ سنتے ہو چل کر وہاں امروہہ اور دیگر مقامات دیکھ لو‘ میرے سوانح نگار کی حیثیت سے امروہہ اور وہاں کا محرّم تمہیں ضرور دیکھنا چاہیے‘ اور میاں اب ہم ستر برس کے ہو چلے ہیں‘ پھر خدا جانے وہاں جانا ہو نہ ہو‘ یہ ہمارا آخری پھیرا سمجھو گھر واپس آ کر اچھو میاں میں نے آپ سے مشورہ نہ کیا ہوتا تو اچھا تھا۔ کراچی والوں کی طرح آپ نے بھی یہ کہہ کر بھڑکایا کہ رئیس صاحب کے ساتھ یہ سفر تو تاریخی حیثیت اور نوعیت کا بن جائے گا اور وہ جو گرہ میں مال نہیں ہے اس کا کیا ہو گا‘ نہ پاسپورٹ نہ پیسہ‘ لیکن آپ نے یہ سب کچھ کر گزرنے کا حوصلہ دیا تومیں نے فون پر حضرت کو بتا دیا کہ مجھے اپنا ہم سفر جانیے اور ؎
مجھ کو پہنچا ہی جانو اپنے پاس
آج‘ کل شام یا سحر پہنچا
عید کا ہنگامہ فرو کہاں ہوا تھا۔ سہ پہر تک عید ملنے کے لیے آنے والے دوستوں اور رفیقانِ کار کی پذیرائی کا لطف حاصل کرتا رہا ادھر کراچی کے ارادے ادھر محمد شاہ بھتیجے صاحب کے ایس پی کے مقابلے کے امتحان کا معاملہ اور مرحلہ اور معاملات کی تکمیل‘ ناچار لاہور پنڈی اسلام آباد پشاور تک جانا پڑا۔ پشاور میں حضرت امیر حمزہ شنواری سے اجمیر شریف میں ان کے دوست خلیفہ عبدالشکور کے نام خط لکھ دیا ایک خط دہلی کے بابر صاحب کے نام بھی موصوف نے عطا کیا۔ بابر کانگریسی پختون ہیں ‘حمزہ مسلم لیگی ۔مراد شنواری نے بتایا بابر بڑے انتہا پسند تھے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کا ردعمل بابر پر شدید ہوا۔ میں نے یہ سوچ کر خط رکھ لیا کہ اس سے دلی جا کر ضرور ملنا ہے ہماری ایک خصوصیت مزاج کی یہ بھی تو ہے۔ مخالفین کی باتوں کا صرف برا مان لیتے ہیں غورو فکر کو راہ نہیں دیتے۔ ہمیں دشمن کے ہفوات پر کان دھرنے چاہئیں تاکہ تیوروں کے اتار چڑھائو کا اندازہ بخوبی ہوتا رہے۔ پشاور میں دو گھنٹے سے زیادہ نہیں رکا‘ دوسری ویگن سے پنڈی پلٹ آیا اور اپنے کرم فرما حاجی کپتان فضل الٰہی کے دولت کدے پر رات بسر کی۔
آج کا مطلع
سراب دیکھنے کو‘ انتظار کرنے کو
کرو تو کام پڑے ہیں ہزار کرنے کو