ایک اخباری رپورٹ کے مطابق متنازعہ کالا باغ ڈیم ایک بار پھر حکومت کے تعمیر کے لیے تیار منصوبوں میں آ چکا ہے۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب سینیٹ میں وزارت پانی و بجلی کی طرف سے ہائیڈل پاور منصوبوں کی فہرست پیش کی گئی جو کہ تعمیر کے لیے فوری طور پر تیار ہیں۔ ہائوس کو بتایا گیا کہ اس کا مستقل ڈیزائن اور ٹینڈر دستاویزات 1988ء میں مکمل کر لی گئی تھیں لیکن ڈیم کی تعمیر صوبوں کی طرف سے مکمل رضامندی حاصلم کرنے پر ہی شروع کی جا سکتی ہے۔ بلوچستان سے سینیٹرز نے، جن میں عثمان کاکڑ شامل تھے‘ اس منصوبے کو تحریری طور پر پیش کی گئی فہرست میں شامل کرنے پر اعتراض کیا اور اسے فہرست میں شامل کرنے کی وجہ دریافت کی۔ تاہم حیران کن امر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اور عوامی نیشنل پارٹی سے متعلقہ سینیٹرز نے اس موضوع پر بات ہی نہیں کی جبکہ یہ دونوں صوبے اس کے سخت مخالف رہے ہیں۔ تاہم وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کچھ صوبائی اسمبلیوں کی طرف سے اس منصوبے کے خلاف منظور کی گئی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کسی متنازعہ منصوبے پر عمل پیرا نہیں ہو گی۔
اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کا ارادہ ہے کہ پہلے اس منصوبے پر صوبوں کی جانب سے متفقہ منظوری حاصل کی جائے اور جس کے لیے ایک بار پھر اس پر بحث و تمحیص کرانے کا کوئی پروگرام رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ دو سابق چیئر مین واپڈا جن میں سے ایک کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا اس منصوبے کے حق میں بھرپور وکالت کرتے رہے ہیں بلکہ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیئرمین ظفر محمود نے تو چیلنج کیا تھا کہ میرے ساتھ بحث کر لی جائے اور میں ثابت کروں گا کہ اس کی تعمیر سے کسی صوبے کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے۔
کُچھ عرصہ پہلے (ق) لیگ کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ وہ کالا باغ ڈیم کے حق میں ہے اور اس کے لیے تگ و دو کرے گی۔ یہ جماعت اچھی طرح سے سمجھتی ہے کہ اس منصوبے کی حمایت کر کے کم از کم پنجاب کے ووٹرز کو خاصی حد تک اپنی طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے حکومت نے بھی اسی خیال سے یہ شوشہ چھوڑا ہو کہ پنجاب کے کسانوں کو خوش کرنے کے لیے کم از کم زبانی کلامی ہی یہ بات پھیلا دی جائے کہ حکومت تو یہ ڈیم بنانا چاہتی ہے لیکن دو صوبے اس کی مزاحمت کرتے ہیں اور اسی لیے وہ اس معاملے پر پیش قدمی نہیں کر سکتی ورنہ سینیٹ کے اجلاس میں تحریری طور پر اس کا اس طرح ذکر کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟
یہ بات آبی ماہرین کی طرف سے بار بار دہرائی جا چکی ہے کہ بھارت کی طرف سے آئے دن نئے سے نیا ڈیم تعمیر کرنے سے پاکستان کو پانی کی ترسیل کم ہو کر بالآخر رُک جائے گی اور یہ لہلہاتا ہوا خطہ ایک ریگزار میں تبدیل ہو کر رہ جائے گا، حتیٰ کہ زیر زمین پانی کی سطح بھی روز بروز نیچے سے نیچے جا رہی ہے اور ملک کو پینے کے پانی کا بھی شدید مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے۔ لیکن کالا باغ ڈیم تو درکنار کسی حکومت نے کوئی چھوٹا ڈیم بنانے کا بھی تکلف روا نہیں رکھا اور اس سنگدلانہ غلطی کی کوئی وجہ بھی کبھی بیان نہیں کی جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔
اب تازہ اطلاعات کے مطابق بھارت دریائے چناب اور کابل پر بھی ڈیم بنا کر پاکستان کا ناطقہ مکمل طور پر بند کرنا چاہتا ہے۔ اس نے پہلے بھی کئی ڈیم معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنا ڈالے جن پر ہم عالمی عدالت میں بھی گئے لیکن کمزور وکالت اور اپنا کیس صحیح طور پر پیش نہ کر سکنے کی وجہ سے ناکامی ہوئی، جس دوران اس سکیم کے سربراہ جماعت علی شاہ بڑھ چڑھ کر باتیں تو بناتے رہے لیکن پراسرار طور پر اور عملی طور پر کچھ کرنے میں ناکام رہے اور اب وہ کافی عرصے سے منظر سے ہی غائب ہیں۔ واضح رہے کہ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ کچھ لوگوں کی غداری کی وجہ سے یہ منصوبہ توڑ نہ چڑھ سکا کیونکہ بھارت شروع سے ہمارے ایسے منصوبوں خاص کر کالا باغ ڈیم کے سخت خلاف تھا کیونکہ وہ پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان اسی طرح پہنچا سکتا تھا اور جس کے لیے اس نے بے پناہ فنڈنگ بھی کر رکھی تھی۔ بعض لوگوں کے اعتراض پر اس کے ڈیزائن میں بھی خاطر خواہ تبدیلی کر لی گئی تھی تاکہ نوشہرہ کے زیرآب آنے کا خدشہ باقی نہ رہے لیکن اس پر اتفاق رائے بھی پیدا نہ ہو سکا اور ہزاروں مکعب فٹ پانی روزانہ سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اپنے عہد میں یہ ڈیم زبردستی بھی بنوا سکتے تھے اور کسی میں اس کی مزاحمت کی ہمت بھی نہیں ہونی تھی لیکن یہ موقع بھی ضائع کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ صوبہ سندھ کے اعتراضات کا بھی تسلی بخش جواب دے دیا گیا تھا لیکن کوئی کامیابی نہ ہوئی۔
بھارت یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اپنی تمام تر دشمنی کے باوجود نہ وہ پاکستان کو فتح کر سکتا ہے نہ کسی بھی طرح سے مغلوب؛ چنانچہ وہ اسے پانی کے ہتھیار ہی سے زیر اور اپنا محتاج بنا سکتا ہے جس پر وہ پوری سرگرمی سے عمل کر رہا ہے۔ اب اس نے اس سکیم اور معاہدے ہی سے منحرف ہونے کا عندیہ ظاہر کر دیا ہے‘ اگرچہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ وہ یکطرفہ ایسا نہیں کر سکتا۔ حالانکہ وہ کئی ایسے کام کرتا چلا جا رہا ہے جو وہ اخلاقی اور قانونی طور پر نہیں کر سکتا اور ہم اُسے روکنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے، اور ہم بے شک اسے تسلیم نہ کریں کہ وہ ہمیں بین الاقوامی طور پر تنہا کر رہا ہے بلکہ خاصی حد تک کر بھی چکا ہے۔ چنانچہ ہماری خارجہ پالیسی کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہو سکتی ہے کہ بھارت نے اقوام عالم کو باور کرایا ہے کہ ہم ایک دہشت گرد ملک ہیں اور دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہماری سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے اور ہمارے سفارت کار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور محض موجیں منانے میں مصروف ہیں اور نہ ہی کبھی ہماری حکومت نے ان سے پوچھا ہے کہ اپنے اُوپر پیسے کی اتنی بربادی کے باوجود آخر کر کیا رہے ہو؟
چنانچہ ہماری نااہلی اور بدنیتی سے وہ وقت آ رہا ہے اور ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ پانی بھی ہمیں بھارت سے خریدنا پڑے اور لطف یہ ہے کہ حکومت کو اب بھی اس کی کوئی فکر نہیں ہے اور اگر کوئی فکر ہے تو اپنی حکومت بچانے کی‘ حالانکہ پانی پر جنگوں کی پیش گوئی کی جا چکی ہے۔
آج کا مطلع
دریا کے اُس پار بھی شاید آبادی ہے ایسی ہی
لوگ ہیں اسی طرح کے ‘ شادی نا شادی ہے ایسی ہی