"ZIC" (space) message & send to 7575

سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان : از سیدّ انیس شاہ جیلانی

پی فارم کے سلسلے میں رئیس پریشان ہیں‘ ایک بج چکا ہے‘ ویزے مل گئے ہیں‘ صحت کا سرٹیفکیٹ اور پی فارم باقی ہیں‘ میرا بھی‘ رئیس کا بھی‘ موچی صاحب آ گئے‘ کہتے تھے اچھو میاں نے بھیجا ہے۔ تقی صاحب بھی آئے تھے‘ ان کو کہیں تقریر کرنے جانا تھا‘ داڑھی مونڈنا پڑے گی، لہٰذا گھبرا رہے تھے۔ موچی صاحب آ گئے‘ جی خوش ہوا‘ رئیس صاحب کو پی فارم نہیں مل رہا تھا...سٹیٹ بینک جانا ہوا‘ محکمہ تعلیم کا اجازت نامہ اور رئیس صاحب کے پاس تھا مگر بے خبر۔ دفتر میں جا کر کھلا‘ جس چیز کی تلاش تھی وہ تو ہاتھوں میں ہے۔ واپس آیا تو موچی صاحب غائب‘ چار بجے تک انتظار کیا۔ میں بُوٹ خریدنے کے لیے نکلا تو آتے ہوئے ملے۔ طارق روڈ سے بُوٹ خریدے‘ سیدھے شکیل عادل زادہ کے دفتر‘ وہ سو کر اٹھے تھے‘ میں نے لکھ کر دلی کے لیے مدد طلب کی۔ پروفیسر بھی تھے‘ جمیل اختر خان‘ حسن ہاشمی بھی محبت سے ملے‘ مصطفی بریلوی بھی آ گئے‘ دیر میں پہچانے۔ میرے خط ''العلم‘‘ میں چھپتے رہتے ہیں‘ ''سائنس ڈائجسٹ‘‘ کے مدیر بھی ملے‘ اچھے آدمی نظر آئے۔ میں نے کہا میں تو خرید کر بچوں کو دیا کرتا ہوں یہ رسالہ۔ آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں‘ خوش ہوئے۔ بریلوی صاحب نے کچھ قصے سنائے‘ اقبال سلیم گاہندری قید و بند میں مبتلا ہوئے۔
سید الطاف علی بریلوی صاحب کے والد کی تحریک سے آزاد ہوئے۔ دکن سے اقبال سلیم نے لکھا کسی کتاب کا مسودہ پانچ سو کا وی پی بھیج دو‘ چھاپ دوں گا۔ الطاف صاحب نے رسالہ سہیل کے اداریے جمع کر کے بھیج دیئے اور وہ ''سہیل کی سرگزشت‘‘ کے نام سے چھپ گئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور نواب حبیب الرحمن شیروانی کی مراسلت کو بھی الطاف صاحب ہی نے ''کاروان خیال‘‘ کا نام دیا اور چھپوایا۔ ایک ہزار روپے معاوضہ اس کا بھی ملا۔ شکیل نے کہا صبح آ جانا۔ دلی کے لیے خط دوں گا۔ میں اور موچی صاحب نیچے اُترے۔ کھڑے رہے‘ پھر چلنا شروع کیا۔ صدر میں موٹر رکشہ ملا‘ ایک گھنٹہ صرف ہوا۔ موچی صاحب کو سومرو کے ہاں چھوڑا‘ گلشن اقبال پہنچا‘ زاہدہ غائب۔ جون سے گپ۔ احمد الطاف اور روشن بھی آ گئے۔ زاہدہ دیر سے آئیں اور آتے ہی جھگڑا کہ تم رئیس صاحب کے ہاں سے سامان اُٹھا کر کیوں نہیں لائے‘ لہٰذا میں تو تمہیں ایئرپورٹ پہنچانے نہیں جائوں گی۔ رئیس کے ہاں سے سامان اٹھانا بھی تو ایک مسئلہ تھا۔ زاہدہ کے آنے سے پہلے رئیس کے بارے میں جون اپنا دُکھڑا روتے رہے کہ وہ میرے آگے بڑھنے سے جلتے ہیں۔ کراچی کا کوئی لونڈا غالب ؔ بن جائے انہیں فکر نہ ہو گی۔ جون کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ کہتے تھے رئیس کسی کا نہیں ہے‘ نہ بچوں کا‘ نہ دوستوں کا۔ سقوط ڈھاکہ پر اپنے اشعار کا ذکر کرتے رہے۔ درشن کو خاصی دور بس اڈے تک چھوڑا تاکہ کھانا بھی ہضم ہو اور سفر کی جو وحشت ہے وہ ایک ہم زبان سے گفتگو کرنے سے کم ہو۔ واپس آ کر کچھ پڑھا اور سو گیا۔ پونے پانچ آنکھ کھلی تو کھانا ہضم نہ ہونے کا علم ہوا‘ پون گھنٹے ٹہلا اور یہ چند سطریں لکھیں۔ اب تیار ہونا ہے اور آج روانگی ہے‘ دو فرض بھی پڑھے اور سفر میں پڑھتا رہوں گا‘ انشاء اللہ۔ خدا عزت سے لے جائے اور لے آئے‘ بیمار بھی نہ پڑوں‘ صحت بھی اچھی رہے۔ 
انیس‘ کراچی 8 اکتوبر 1982ء پونے چھ بجے صبح۔
میں نے سائنس ڈائجسٹ کے مدیر اعلیٰ کا نام تو لکھا ہی نہیں۔ ریاض الدین خان نے اپنا تعارفی کارڈ بھی تو عطا کیا تھا۔ سائنس ڈائجسٹ جیسے بیسیوں ڈائجسٹ پاکستان میں چھپنا چاہئیں۔ کون جان جوکھوں میں ڈالے۔ اقبال سلیم گاہندری ''نفیس اکیڈمی‘‘ کے کرتا دھرتا۔ رئیس احمد جعفری مرحوم کے ہاں اکثر آتے جاتے رہتے تھے۔ جعفری صاحب کے ناشر بھی تھے اور قابل اعتماد دوست بھی۔ جعفری صاحب کی خاص ڈاک اقبال سلیم کے پتے پر وصول کی جاتی تھی۔ چند تصویرِ بتاںکچھ حسینوں کے خطوط‘ دیومالا کے اسیر حضرت جون ایلیا بھی سقوط ڈھاکہ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ جی چاہتا ہے وہ اشعار یہاں ضرور نقل کروں‘ یہ مطبوعہ ہیں۔
استفسار...از جون ایلیا
کیا اس قدر حقیر تھا اس قوم کا وقار
ہر شہر تم سے پوچھ رہا ہے جواب دو
یہ بات کیا ہوئی کہ بیابانِ وقت میں
احساسِ تشنگی کو بڑھا کر سراب دو
ہم کو تھپک تھپک کے دکھائے گئے تھے خواب
خاموش کیوں ہو؟ اب ہمیں تعبیرِ خواب دو
جو صرفِ گلستان نہ ہوا رائیگاں گیا
اس خونِ شاہدانِ وفا کا حساب دو
ملت کے احترام کو رُسوا کیا گیا
پُر حوصلہ عوام کو رُسوا کیا گیا
لینا تھا اِس زمیں پہ شفق سے جسے خراج
اُس رنگِ صبح و شام کو رُسوا کیا گیا
تھیں اپنے حوصلوں کی صفیں جس سے آہنیں 
اُس نظم‘ اُس نظام کو رُسوا کیا گیا
نازاں تھا جس پہ منزلِِ عظمت کا اعتبار
اُس شوکتِ خرام کو رُسوا کیا گیا
تاریخ جس کے سامنے رہتی تھی سجدہ ریز
اُس عظمتِ دوام کو رُسوا کیا گیا
اے غازیو جہاد کی توہین کی گئی
اے شاعرو! کلام کو رُسوا کیا گیا
جو لکھ رہے تھے خون سے تاریخِ فصلِ رنگ
اُن نامیوں کے نام کو رُسوا کیا گیا
یہ پوچھتی ہیں وقت سے خود دار بستیاں
جس نے ہمیں فریب دیا ہے وہ کون ہے
کس نے کیا ہے قوم کے زخموں کو بے وقار
جس نے ہمیں ذلیل کیا ہے وہ کون ہے
کس نے کہا کہ ہار گئے اپنے حوصلے
ہم اپنے حوصلوں کے رجز خواں ہیں آج بھی
ہم کو شکستِ ولولۂِ جاں نہیں قبول
ہم پاسدار ولولۂِِ جاں ہیں آج بھی
ہم جو لہو لہان ہوئے حق کے واسطے
ہم لوحِ روزگار کا عنواں ہیں آج بھی
کھائے ہیں ہم نے زخم‘ اُٹھائے ہیں ہم نے داغ
ہم نامدارِ رنگِ بہاراں ہیں آج بھی
ناقابلِ شکست ہیں اس قوم کے عوام
اِس قوم کے عوام کی تعظیم کیجیے
یہ قوم آج بھی ہے سر افراز و سرخرو
اس قوم کے جلال کو تسلیم کیجیے
مانا کبھی نہیں ہے غلط بندوبست کو
ہم نے شکست دی ہے ہمیشہ شکست کو
آج کا مطلع
کیسے ہو سکتی ہے کسی کی بھینس
اپنی لاٹھی ہے اور اپنی بھینس

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں