"ZIC" (space) message & send to 7575

عمران شاہد بھنڈر اور دیگر معاملات

نوجوان نقاد عمران شاہد بھنڈر نے جس قلیل عرصے میں اپنی پہچان قائم کر لی ہے وہ بے حد خوشی کی بات ہے۔ اس کی تازہ تصنیف بعنوان ''فلسفہ اور سامراجی دہشت‘‘ حال ہی میں نظر نواز ہوئی ہے۔ یہ ان کا مرغوب موضوع بھی ہے۔ یہ کتاب کتاب محل لاہور نے چھاپی اور اس کی قیمت 700 روپے رکھی ہے۔ ہم اس کے مندرجات کے بارے میں آپ کو وقتاً فوقتاً آگاہ کرتے رہیں گے‘ فی الحال کتاب کے پسِ سرورق کی تحریر پیش کی جا رہی ہے جس سے مصنف کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے:
''اکیسویں صدی میں مہذب ترقی یافتہ ممالک کے اتحاد سے کمزور اقوام پر کی گئی یلغار‘ سامراجی پالیسیوں کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف پنپنے والی نفرت اور اس کے ردِ عمل میں مسلمانوں پر مسلط لبرل دہشت پسندی اور رنگ‘ نسل‘ اقوام اور مذاہب کے درمیان بڑھتے ہوئے امتیازات‘ جبکہ مقامی سطحوں پر بورژوازی اور پرولتاریہ کی بڑھتی ہوئی تفریق‘ جبکہ جنگوں اور دہشت گردی کے تسلسل سے یہ حقیقت ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ یہ گھنائونا سرمایہ دارانہ نظام اکیسویں صدی میں بھی نہ صرف یہ کہ انسان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے بلکہ ان مسائل کی شدت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ جنگیں اور دہشت گردی اس کی ضرورت ہیں۔ دہشت گردی، جنگوں کی غیر موجودگی میں سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام کو روکنا مشکل ہے۔ حقیقت میں دہشت گردی بورژوازی کی آئیڈیالوجی کا جزو لاینفک بن چکی ہے اور دہشت گردی کا احیاء سرمایہ داری کی بقا کا تقاضا ہے کہ سامراجی ایجنسیاں اپنے اولین فریضہ کے
طور پر مذہی دہشت گرد تنظیموں کی نشو و نما کریں‘ طبقاتی تضادات کی شناخت کے برعکس قومی‘ مذہبی ‘ لسانی‘ گروہی شناختوں کو ابھاریں۔ دہشت گرد تنظیموں کی آئیڈیالوجی کی بنیاد مذہب پر ہے اور مذہب کا استعمال اس گھنائونے نظام کے تحفظ کے لیے لبرل آئیڈیالوجی کی ضرورت ہے۔ ہر وہ ملک جو دہشت پسند سامراجی ممالک کی مرضی کے خلاف اپنے اندرونی مفادات کے لیے کام کرتا ہے‘ یہ ایجنسیاں ان دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو یقینی بنواتی ہیں۔ ان ممالک میں خودکش حملے کراتی ہیں‘ حالات اتنے خراب کر دیے جاتے ہیں کہ سامراجی ممالک کی مداخلت کا جواز لازم ٹھہرتا ہے۔ بعدازاں امن‘ جمہوریت‘ انصاف، آزادی اور مساوات جیسی اقدار کو پروپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کے اذہان میں راسخ کر کے ان ممالک کے اندر سے ان اقدارکی احتیاج کو دکھا کر انہیں وسیع تر انسانی حقوق کے لیے ناگزیر باور کرایا جاتا ہے۔ مذہب بحیثیت دہشت پسند تنظیموں کی آئیڈیالوجی اور لبرل ازم جس کی بقا مذہبی دہشت آئیڈیالوجی میں مضمر ہے‘ یہ دونوں ہی اپنا جواز کھو چکے ہیں۔ انہی کی ملی بھگت سے عالمی سرمایہ دارانہ نظام اب تک زندہ ہے۔ بیسویں صدی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ جب یہ سارے 'مہذب‘ ممالک ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے تھے اور دو عظیم جنگوں میں سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانے والی لبرل آئیڈیالوجی نے ساڑھے چھ کروڑ
لوگوں کا سفاکانہ قتلِ عام کر دیا تھا۔ بیسویں صدی کے بعد اکیسویں صدی بھی جنگوں کی صدی معلوم ہوتی ہے۔ اگر اس غیر انسانی سرمایہ دارانہ نظام سے نجات نہ پائی گئی تو ایک بار پھر انہی مہذب اقوام کے ہاتھوں نوعِ انسانی کے نیست و نابود ہونے کے امکانات واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سطح پر اس نظام کے خلاف جدوجہد کو یقینی بنایا جائے۔‘‘
ماہنامہ''فانوس‘‘ لاہور
ابھی ہم نے اپنے کالم میں گزشتہ شمارے کا ذکر کیا ہی تھا کہ اس کا تازہ شمارہ بھی آ دھمکا ہے۔ اس کا تعلق نومبر 2016 ء سے ہے۔ زیادہ خوشی اسی بات کی ہے کہ یہ پرچہ بھی باقاعدگی سے شائع ہونے والے الحمرا‘ بیاض‘ ادب دوست اور شاداب میں شامل ہو گیا ہے۔ اس میں اُردو ادب کی موت اور حسن عسکری‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر رفاقت علی شاہد کا تنقیدی تجزیہ خاصے کی چیز ہے جبکہ بھارت سے اکرم پرویز نے ' نیر مسعود: مانوس خوشبو کا سراغ‘ کے عنوان سے نیّر مسعود کے فن کا جائزہ لیا ہے۔ سعود عثمانی کے مجموعے جل پر مضمون ہے اور قیمت 50 روپے ہے۔
تماہی ''پنجابی ادب‘‘
اس کا تذکرہ غلطی سے رہ گیا تھا۔ پروین ملک کی ادارت میں شائع ہونے والے اس معیاری پنجابی پرچے میں حال ہی میں انتقال کر جانے والی ممتاز ادیبہ افضل توصیف پر گوشہ لگایا گیا ہے، جس میں اس کی شخصیت پر نسرین انجم بھٹی کا مضمون ہے اور افضل توصیف کی دو کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔ آغاز میں شاہ حسین کی ایک خوبصورت نظم ہے۔ جبکہ افضل توصیف کے پوتے ارمان نوید اور ڈاکٹر نبیلہ رحمن نے بھی اسی موضوع پر مضمون باندھا ہے۔ اس کے علاوہ کہانیاں، شاعری اور غلام حسین ساجد کا قصہ صاحباں پر تبصرہ ہے۔ قیمت 100روپے۔
آہ! اسلم کولسری 
اسلم کولسری کے ساتھ میرا دوہرا رشتہ تھا‘ ایک تو ان کا تعلق بھی میرے شہر اوکاڑہ سے تھا اور دوسرے اردو سائنس بورڈ میں میرے ساتھ دو سال تک ریسرچ آفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور پھر ''دنیا‘‘ میں بھی چار سال وہ ہمارے ساتھ رہے۔ ان کی شاعری سادہ بیانی کا ایک خوبصورت نمونہ تھی بلکہ اگر انہیں سہل ممتنع کا شاعر کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ نو دس شعری مجموعوں کے خالق تھے اور زیادہ تر غزل ہی کہتے تھے۔ یہ شعر اُن کی پہچان بن چکا ہے ؎
شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
اور‘ اب اقتدار جاوید کی یہ خوبصورت شاعری:
ثمرفروش
ثمر فروش کی نگاہِ دور بین میں/ اندھیرا درمیان سے پھٹا/ بہت سے سبز پوش تھے/ کہ جن کا ریشمیں لبادہ سرخ تھا/ گلِ انار سرخ ہونٹوں سے زیادہ سرخ تھا/ پکے ہوئے پھلوں کی خوشبوئیں تھیں مجتمع/ گھلی نہ تھی ابھی احاطۂ سیاہ میں ہوا/ مہک ابھی اڑی نہ تھی/ مقامِ متّصل سے بے خبر/ نقاب در نقاب مختصر سی ایک بیل/ تھی چھپی ہوئی دلہن کی طرح اپنے آپ میں/ ابھی ہلے نہیں ہیں شاخچے/ لرزتی ہے ابھی نوائے خوش مؤ ذنِ جواں کی/ ابھی طیور تک خموش ہیں/ نہ جو کسی بھی ذو فنون سمت سے بڑھے/ نہ جو کسی کے تازہ جسم و جان سے اٹھے / دبیز خاموشی میں بولتا/ دبیز خامشی کو چیرتا ہوا سروش ہے/ چھڑک دیا کسی نے آبِ رزفشاں جُھنڈ پر/ چمک اٹھا سفید دن / کِھلا ثمرفروش خوشبوئوں میں بند باغ دیکھ کر/ ہزار رنگ والی تتلیاں / جو اک نحیف شاخچے سے لگ کے سو رہی تھیں/ جاگنے لگیں/ سہاگنیں درون توڑتی/ سیاہ سے سفید ہوتی رات/ عین آدھی رات کے دمکتے خواب کو/ تیا گنیں لگیں/ سیاہ بادلوں کی نرم اور مہین چادروں سے/ باغ ڈھانپنے لگی/ثمرفروش کی نگاہِ دور بیں!
آج کا مقطع
سادگی اپنی کہوںیا اُس کی مکاری‘ ظفر
کس لئے آیا تھا اور کس شے پہ راضی کر گیا

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں