مُبارک ہو کہ پیپلز پارٹی نے روٹھے ہوئوں کو منانے اور کھوئے ہوئوں کی جستجو کے سلسلے میں کوششیں شروع کر دی ہیں، لیکن کسی طرف سے کامیابی کی توقع اسے کم ہی رکھنی چاہیے کیونکہ پارٹی چھوڑنے والوں نے یہ مقولہ بھی سُن رکھا ہے کہ نانی نے خصم کیا‘ بُرا کیا‘ کر کے چھوڑ دیا اور بھی برا کیا۔ پارٹی چھوڑنے والوں نے ایک بار تو یہ الزام برداشت کر لیا‘ لیکن اب دوبارہ لوٹے بننا اور کہلانا ان کے لیے کچھ ایسا ممکن نہیں رہا‘ خاص طور پر ان حالات میں جبکہ پارٹی میں ان کے لیے کوئی تازگی اور کشش کہیںنظر نہ آتی ہو۔
مچھلی ہمیشہ سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے۔ اس لیے جب تک پارٹی کا سرا ہی تندرست حالت میں موجود نہ ہو‘ اس کی طرف ‘ دوبارہ کیسے راغب ہوا جا سکتا ہے کیونکہ اگر پارٹی کا چہرہ اور لُبِ لباب حسبِ سابق ہی رہے تو اس کوشش کو سعی رائگاں ہی کہا جا سکتا ہے؛ چنانچہ اپنے موجودہ چہرے کے ساتھ پارٹی میں کسی خاطر خواہ تبدیلی کا ایسا کوئی عنصر نہیں ہے کہ چھوڑے ہوئوں کو واپس آنے کی ترغیب حاصل ہو سکے چنانچہ ہر طرف سے قیادت کو کورا جواب ہی ملنے کی توقع رکھنی چاہیے۔ ویسے بھی جو لوگ نئی پارٹی میں اپنے لیے تھوڑی بہت جگہ بنا چکے ہیں وہ اسے خیر باد کیسے کہہ دیں گے۔
پچھلی بار پیپلز پارٹی کو اقتدار بینظیر کی شہادت ہی کی وجہ سے مل گیا تھا اور آصف علی زرداری پکی پکائی پر ہی آ کر بیٹھ گئے تھے ورنہ بینظیر نے انہیں ایک مناسب فاصلے پر رکھا ہوا تھا اور یہ کوئی راز کی بات بھی نہیں ہے۔ مرحومہ کی وصیت کس طرح تیار کی گئی یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان شرفاء نے زر اندوزی کے سوائے کچھ بھی نہ کیا اور پچھلے الیکشن میں اپنا انجام بھی دیکھ لیا اور جس کی تلافی اسی طور ہو سکتی تھی کہ پارٹی کو تھوڑا بہت ہی صاف ستھرا کرنے کی کوشش کی جاتی۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 70ء کے الیکشن میں جو لوگ کامیاب ہوئے صرف پارٹی ٹکٹ کے مرہون منت تھے اور اپنی کوئی سیاسی حیثیت یا پس منظر نہیں رکھتے تھے۔ ہمارے ہاں رانا حنیف‘ حاجی صادق‘ رائے میاں خاں اور شیخ ریاض احمد اس کی واضح مثالیں ہیں‘ ''چنانچہ اب جبکہ پارٹی میں کوئی ایسی طلسمی کشش بھی نہیں ہے، کوئی اپنا مردہ خراب کرنے پارٹی میں کیوں واپس آئے گا اور بے حیثیت لوگ پارٹی کا اثاثہ کیونکر بن سکیں گے۔ اس لیے اِدھر اُدھر بے سود ہاتھ پائوں مارنے کی بجائے پارٹی سب سے پہلے اپنا چہرہ صاف کرنے اور منہ ہاتھ دھونے کا اہتمام کرے، اپنے منشور پر زور دے اور ایک نئے ولولے کے ساتھ اس پر عملدرآمد کرنے کا یقین دلائے اور زراندوزی سے تائب ہونے کا واضح اعلان کرے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے آصف علی زرداری پارٹی کی راہ کا حقیقی روڑا ہیں جسے وہاں سے ہٹانے کی اس پارٹی میں جرأت ہے۔ خود موصوف دور اندیشی اور سیاسی عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوئے، وقتی طور پر ہی سہی، پارٹی امور میں ہر طرح کی مداخلت بند کرنے کا اعلان کر دیں۔ پھوپھی صاحبہ، رحمان ملک اور رخسانہ بنگش کو مزید کب تک یہ جماعت افورڈ کر سکتی ہے، یہ بھی اس کے لیے ذہنی غذا کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی ایم بی بی ایس اور منظور وٹو جیسے حضرات اس لیے پارٹی کی مجبوری ہیں کہ ان کی انتخابی سیٹیں پکی ہیں۔ اگرچہ رحمن ملک کا تو کوئی حلقۂ انتخاب ہی نہیں ہے۔ اُسے صرف ''خدمتگاری‘‘ کا صلہ ملتا ہے اور ملتا رہے گا۔
اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف جو آپس میں دست و گریباں تھے، اب پتا چل رہا ہے کہ نواز شریف نے ان کی ساری شرائط تسلیم کر لی ہیں اور مطلع صاف ہو گیا ہے۔ نواز شریف پر جب بھی کوئی نازک وقت آتا ہے وہ اپنی تاجرانہ ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر قیمت پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں، اس لیے نواز شریف کے جو مخالفین متنازع خبر کے سلسلے میں کسی سخت ایکشن کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، انہیں بھی اپنا ٹٹو چھائوں میں باندھ لینا چاہیے۔ حق بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومت اور اقتدار پیسے اور صرف پیسے کا کھیل ہے۔ سو، الیکشن میں ظاہر ہے کہ نواز شریف اور زرداری کا پیسہ ہی اپنا رنگ دکھائے گا۔ رہی پی ٹی آئی، تو اس کے ساتھ بھی چند پیسے والے موجود ہیں۔ زرداری اس وجہ سے بھی پارٹی کی مجبوری ہو سکتے ہیں کہ پیسہ کون لگائے گا، حالانکہ بینظیر کے اثاثوں میں بلاول کا حصہ بھی نکلا ہو گا جو الیکشن میں چلایا جا سکتا ہے۔ زرداری صاحب کا یہ تازہ بیان خالی از دلچسپی نہیں ہے کہ سرے محل ان کی ملکیت نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز آپ آگے فروخت کر چکے ہوں، آپ کی ملکیت کیسے ہو سکتی ہے! سو، جب تک پیپلز پارٹی اپنی مذکورہ بالا مجبوریوں پر قابو نہیں پا لیتی اور ایک نیا، تبدیل شدہ چہرہ لے کر سامنے نہیں آتی، اس کی صورت حال ویسی کی ویسی ہی رہے گی اور ان دو زرداروں کی لڑائی میں غریب عوام ہمیشہ کی طرح گھن بن کر پستے رہیں گے کیونکہ یہ ہماری تقدیر میں لکھ دیئے گئے ہیں، اور، یہ تو طے ہے کہ جیسے ہم ہوں گے ہم پر حکمران بھی ویسے ہی مسلط ہوتے رہیں گے، ہور چوپو!
اور، اب نیٹ سے موصول ہونے والی ظفر کمالی کی یہ دلچسپ غزل:
کہیں درہم، کہیں ڈالر، کہیں دینار کا جھگڑا
کہیں لہنگا، کہیں چولی، کہیں شلوار کا جھگڑا
وطن میں آج کل اِس ذات سے اُس ذات کو شکوہ
لگا ہونے کہیں اِس پار سے اُس پار کا جھگڑا
وہ مسجد ہو کہ مندر ہو، ادب ہو یا سیاست ہو
وہی ہے جنگ کرسی کی، وہی دستار کا جھگڑا
زمانے کی روش سے کر لیا ہے سب نے سمجھوتا
کوئی معنی نہیں رکھتا یہاں کردار کا جھگڑا
کسی کی ٹانگ ٹوٹے، نا کسی احمق کا سر پھوٹے
اگر ہونے لگے، ہشیار سے ہشیار کا جھگڑا
یہی انساں کھلونوں کے لیے بچپن میں لڑتا ہے
بڑے ہونے پہ کرتا ہے در و دیوار کا جھگڑا
یہ دنیائے محبت بھی انوکھی چیز ہے صاحب
کبھی انکار پر نالش،کبھی اقرار کا جھگڑا
چھڑا جب ان کے گھر جھگڑا تو ان کی عقل چکرائی
جو سلجھاتے رہے تھے عمر بھر بازار کا جھگڑا
امیروں کی لڑائی میں کوئی لذت نہیں ہوتی
مزہ آتا ہے جب ہو مفلس ونادار کا جھگڑا
اگر جاہل بنے عالم تو کر تائید تو اُس کی
ظفرؔ اچھا نہیں ہوتا ہے یہ بیکار کا جھگڑا
آج کا مقطع
ظفر‘ غلط ہے کہ میں اُس کو پانہیں سکتا
یہ میرے ہاتھ پہ اُس کی لکیر تو دیکھو