حضرت رئیس امروہوی کی معیت و مصاحبت میں ایک مسافر تو میں تھا‘ دوسرے اختر فیروز تیسرے محمود صاحب اکبر آبادی۔ یہ چار نفری یوں کہیے کہ ایک غیر سرکاری ''وفد‘‘ تھا جو کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ کی دعوت پر لدا پھندا رواں دواں ہونے کو تھا۔ اخترفیروز اور محمود صاحب کا نام تو بار بار سنا تھا‘ دیکھا پرواز سے ایک ہی دن پہلے۔ ہر شخص میں ایک صلاحیت پہلی ہی نظر میں تجزیہ کر لینے کی ہوا کرتی ہے۔ مجھ میں بھی ہے۔ محمود صاحب بھلے آدمی نظر آئے اور ثابت بھی ہوئے۔ اختر فیروز البتہ روکھے پھیکے‘ جلد باز، اُکھڑے اُکھڑے سے تیزطرار اور چالباز سے لگے‘ اور کسی قدر ہونق بھی۔ میرا تعارف رئیس صاحب نے یہ کہہ کر کروایا، بھئی یہ ہیں سید انیس شاہ جیلانی‘ یہ بھی ہمارے ساتھ جا رہے ہیں‘ پانچ چھ ہزار روپے کا وہاں انتظام کر لیا ہے۔ انگوٹھی تو ان کے ہاتھ میں رہتی ہی ہے، گلے میں ہار طلائی الگ۔ اختر فیروز نے اک نگاہِ غلط انداز میں مجھ پر ڈالی اور فرمایا: اس سے وہاں ان کا کام کیا چلے گا۔ اس پر بھی رئیس نے کہا، ان سے گلے تو ملو۔ میں نے تو یہی محسوس کیا بادل ناخواستہ وہ گلے بھی ملے اور چلے گئے، یوں جانیے خاطر میں لائے بغیر۔ میں کسی قدر لمحے بھر کو محجوب تو ہوا، بہرحال‘ ہوائی اڈے پر آ ملے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک‘ تو اختر فیروز کا اصرار، جرار صاحب سے یہ میرے کانوں میں پڑا میری نشست کا نمبر رئیس صاحب کے ساتھ لگوائو۔ میں خاموش، اختر کی اضطراری نقل و حرکت کو دیکھتا اور مکرر ارشادات کو سنتا رہا۔ مجھے شرارت سوجھی‘ وہ کیوں، رئیس پر میرا حق کم تھوڑی ہے، جرار صاحب ہمارا نمبر لگنا چاہیے اور وہ لگ بھی گیا۔ یہ مرحلہ طے ہوا۔ آگے بڑھے، کندھوں پر لٹکے ہوئے تھیلے مشینوں میں سے گزرے۔ پاسپورٹوں میں کچھ اندراج ہوئے‘ ایک مستعد سپاہی نے ہمارے جسم و جان کو ٹٹولا۔ بخشے رئیس صاحب بھی نہیں گئے‘ آگے بڑھے تو ایک سانولی سلونی خاتون سپاہی نے یہ کہہ کر راستہ روک لیا‘ پہلے ہماری تنظیم کی شان میں شعر لکھیے پھر آگے بڑھیے۔ ایک چھوٹے تھانیدار بھی حضرت کے عقیدت مند نکل آئے۔ بوتلیں اڑنے لگیں، کوکا کولا وغیرہ‘ پان بھی آ گئے۔ شعر بندی ملاحظہ ہو:
یہ اے ایس ایف کیا عمدہ ادارہ
نہایت خوب ہے اس کا نظارہ
کہ اے ایس ایف سلامت ہو جہاں میں
پھلے پھولے وطن کے گُلستاں میں
جانچ پڑتال کے مراحل کی تکمیل فوراً ہو یا اب انتظار گاہ میں بیٹھنا کھل رہا تھا۔ میں نے کہا حضور اب تو وقت مقررہ تک یہیں بیٹھنا ہو گا۔ بارے پچیس تیس منٹ سے بات آگے نہ بڑھی اور بجائے آلہ مکبرالصوت کے دوسری منزل کی سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے اسی پرواز کے کپتان صاحب نے فرمایا‘ چلیے حضرات تشریف لے چلیے۔
امام ضامن اختر فیروز اور محمود صاحب کا پتا نہیں‘ ہمارے تو بندھے ہوئے تھے‘ بیگم رئیس صاحب اور صاحبزادیاں خصوصاً فرزانہ بہت خوش تھیں کہ انیس چچا شریک سفر ہیں اور یہی ہیں جو کثرتِ شراب نوشی سے باز رکھ سکتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی امروہہ جا کر بے طرح پیتے رہے۔ بھیا بڑی بدنامیاں ہوئیں‘ ذرا سنبھالنا۔ میں نے ہاتھ کے ہاتھ مہم شروع کر دی۔ حضور وہاں دو پیالوں سے بات آگے نہیں بڑھنی چاہیے۔ میں نے بار بار اعادہ کیا تو خفا ہو کر بولے‘ میں کوئی بچہ تھوڑی ہوں یار۔ کوثر القادری حسنین (بڑے داماد) نے بھی دبے دبے لفظوں میں زور دیا تو اسی امتناع شراب نوشی پر‘ رئیس بیچارے بھی کیا کریں، کم و بیش پینتیس برس سے بلا ناغہ پی رہے ہیں۔ اچھی بری کی قید نہیں ہے‘ ٹھرا ہی کیوں نہ ہو پئیں گے ضرور۔ سن انیس سو اکسٹھ میں تو میں نے دیکھا دس روپے کی چھوٹی سی بوتل جنّ کی چلا کرتی تھی، رفتہ رفتہ حلقہ ارادت میں توسیع ہوئی تو مفت کی بھی خوب ملنے لگی تھی۔ دیسی نسخے بھی آزمائے جاتے ہیں۔ یہ وہ کافر ہے جو منہ سے لگ کر چھٹتی ہی نہیں۔ اصل بات ویسے قوت ارادی کی بھی ہے۔ جگر مراد آبادی جیسے بلانوش مرتے مر گئے‘ چھوڑ دی تو بس چھوڑ دی‘ بھولے سے بھی چھوا تک نہیں۔ مگر اس میں بڑا پِتہ مارنا پڑتا ہے۔ ہمارا ممدوح صبر و ضبط کا پیکر کبھی نہیں رہا۔ رئیس الشعراء اور شراب
لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں۔ جنرل ضیاء نے یک قلم کیا شے تھی حرام کر دی تو بہت سٹپٹائے۔ میرے گائوں کے غیر مسلم نوجوان درشن کو، وہ جو کسی کو چائے تک نہیں پوچھتے، گھر میں رکھ لیا تاکہ اس کا پرمٹ بنے تو کام چلے۔ متعدد خطوں میں درشن کے درشن آپ بھی دیکھیے اور حضرت کا اضطراب بھی۔ مسلسل پندرہ سے زیادہ خطوں میںذکر چلا گیا ہے۔ ''درشن میاں پرسوں بھی آئے تھے آج بھی۔ شریف اور سیدھا لڑکا لگتا ہے (خدا بھائی عبداللہ شمیم کی نظر بد سے بچائے) کہتا تھا کہ میں یکم اکتوبر سے اپنا بستر دفتر لے آئوں گا، اگر یہ لڑکا غیر مسلم ہے نام سے بھی پتا چلتا ہے تو آپ اس سے کہیں (یعنی اس کو کہیں) کہ اپنے نام سے شربت روح افزا کا پرمٹ بنوا کر عراقی صاحب کو دے دے‘ یہ آج ہی لکھ دیں‘ یہ پرمٹ شناختی کارڈ دکھانے پر ایکسائز کے دفتر میں بن جائے گا۔ درشن یہ کہہ گئے ہیں کہ یکم اکتوبر سے آپ کی بغل میں آ کر سویا کروں گا۔ واللہ اعلم، 20 ستمبر‘‘۔ ''درشن صاحب یہ کہہ گئے تھے کہ میں یکم اکتوبر سے سونے کے لیے آیا کروں گا۔ آج 8 اکتوبر ہے‘ اب تک تو آئے نہیں۔ بھائی بسر و چشم وہ شب میں سوئیں‘ یہ گھر اُن کا گھر ہے۔ 8 اکتوبر 1976ئ‘‘۔ یہ اقتباس تو رُکنے کا نام ہی نہیں لیتے‘ بات امام ضامن کی ہو رہی تھی۔ بیگم رئیس صاحبہ نے امام ضامن باندھے‘ میری ڈھیلی ڈھالی انگوٹھی کو دھاگے لپیٹ کر اس قابل بنا دیا کہ قبلہ کی ریشمی انگلی میں ٹھیک بیٹھ گئی۔ غرض بڑے اہتمام سے ہمیں صدقے اتار کر گھر سے ''چلتا‘‘ کیا گیا۔ پی آئی اے کے ایئر بس طیارے تک ہم بسوں میں سوار ہو کر پہنچے۔ جیٹ طیارے ہوائی اڈے کی عمارتوں سے دور کھڑے کئے جاتے ہیں۔ بس میں مجھے اور رئیس صاحب کو تو بیٹھنے کی جگہ مل گئی، محمود صاحب اور اختر فیروز کے لیے میں نے اٹھنا چاہا تو حضرت نے شلوار کھینچ کر
مجھے بٹھائے رکھا۔ نصرمن اللہ، دعا درود پڑھتا ہوا میں سیڑھیاں طے کر کے داخل دفتر ہوا۔ اب یہ کوئی قید تو ہوتی نہیں کہ جو نشست آپ کے لیے نامزد کر دی گئی اسی کرسی پر بیٹھو۔ ہم چاہتے تو چاروں کرسیوں پر اختیار تھا۔ کہیں بھی کوئی بھی بیٹھ سکتا تھا۔ ہم سب اپنی اپنی مخصوص کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ کھڑکی کے پاس رئیس صاحب تھے اور ہمارے آگے محمود صاحب اور اختر فیروز‘ کیفیت مسرت و ابتہاج کی تھی سبھی کی، میں تھوڑا بہت بدحواس بھی۔ گپ شپ ہونے لگی۔ ایئر ہوسٹوں سے تو یہ ایئر مین یعنی عورت میزبانوں سے مرد میزبان زیادہ دلنواز اور جاذب نظر ہیں۔ وہ لونڈیا کریہہ الصورت اور بس یونہی سی۔ کھایا پیا ہم دونوں نے کچھ نہیں۔ رئیس صاحب تھوڑی دیر تک تو سانس کی مشقیں کرتے رہے پھر اُونگھنے لگے اور میں خاصے بڑے جہاز میں اکلوتی مکھی کو اڑاتا اور فرش پر بچھے ہوئے ٹاٹ کی بوسیدگی اور کرسیوں پر چڑھے ہوئے کپڑوں پر جمی ہوئی میل بلکہ کالک کا جائزہ لیتا رہا۔ ایک گھنٹہ اور چالیس منٹ گزرتے دیر ہی کیا لگتی ہے۔ باتوں باتوں میں اعلان ہوا کہ ہم سلطنت شاہ عالم ازدلی تاپالم پر اُترنے والے ہیں‘ اور جب سُرخی مائل زمین جھاڑیوں سے پٹی ہوئی نظر آئی‘ رئیس صاحب نے میری طرف دیکھا‘ میری زبان سے نکلا، ایک سی زمین ہے‘ کوئی عجوبہ نہیں۔ بولے ہاں مگر اس شہر نے تاریخ دیکھی ہے۔ جی ہاں صدیوں ہمارے تصرف میں رہ چکی ہے...
آج کا مطلع
اگرچہ مہر بلب ہوں سنائی دے رہا ہوں
کہ ہوں کہیں بھی نہیں اور دکھائی دے رہا ہوں