مریضوں کے تسلی بخش علاج تک چین
سے نہیں بیٹھوں گا۔ شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''مریضوں کے تسلی بخش علاج تک چین سے نہیں بیٹھوں گا‘‘ جبکہ اس سے پہلے زندگی پورے چین اور آرام سے گزر رہی تھی کیونکہ صوبے میں کوئی بے چین کر دینے والا مسئلہ تھا ہی نہیں‘ کرپشن کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جا چکا تھا۔ چور اور ڈاکو توبہ تائب ہو چکے تھے اور پولیس و دیگر محکمے مثلاً محکمہ مال وغیرہ گودام کی بے لوث خدمت کرنے میں سڑ دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے اور عوام کو کھانے پینے کی جُملہ اشیاء خالص ترین حالت میں دستیاب تھیں اور مہنگائی کا مکمل طور پر قلع قمع کیا جا چکا تھا، بلکہ کئی چیزیں تو مفت بھی ملنے لگی تھیں؛ اگرچہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹز اور ادویات عنقا ہو گئی تھیں بلکہ سٹنٹ سمیت جعلی اشیاء کی بھر مار ہے لیکن میں نے اس کا علاج یہ سوچا ہے کہ مریضوں کو دعائے صحت مانگ کر صحت یاب کرتا رہوں بلکہ بھائی صاحب کو بھی اس کارِ نیک میں شریک کر لوں کیونکہ وہ ماشاء اللہ مجھ سے بھی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ آپ لاہور میں سرکاری ہسپتالوں کا معائنہ کر رہے تھے۔
عمران خاں جلد مستقل ویزے پر پاکستان
سے باہر جانے والے ہیں۔ مریم اورنگزیب
وزیر مملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران خاں جلد مستقل ویزے پر پاکستان سے باہر جانے والے ہیں‘‘ اور اُن کے ویزے کی درخواست پر میں نے بھر پور سفارش کر دی ہے تاکہ چار دن ہم بھی سُکھ کا سانس لے سکیں کیونکہ انہوں نے کرپشن کے خلاف اس قد شور مچا رکھا ہے کہ ہمیں واقعی اپنے آپ پر شک ہونے لگا ہے؛ حالانکہ وزیر اعظم کے کرپشن سے پاک ہونے کی گواہی وزیر اعلیٰ بھی دے چکے ہیں نیز اگر وہ برطانیہ جانا چاہیں تو پارک لین فلیٹس میں ہمارے مہمان کے طور پر رہائش بھی اختیار کر سکتے ہیں جس کی مریم نواز صاحبہ سے پیشگی اجازت لے لی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خاں وزیر اعظم کے بُغص میں ملک دشکنی نہ کریں‘‘ اور اگر اُنہوں نے ہر حال میں ملک دشمنی ہی کرنی ہے تو ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں تاکہ اس ایجنڈے کو جلد از جلد اور بخیر و خوبی مکمل کیا جا سکے کیونکہ جو کام وہ ساتھ مل کر سرانجام دے سکتے ہیں اس کے لیے اُنہیں دشمنی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز عمران خاں کے بیان پر رد عمل کا اظہار کر رہی تھیں۔
ابھی ن لیگ میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا۔ جاوید ہاشمی
بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''ابھی ن لیگ میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا‘‘ کیونکہ یہ فیصلہ میاں صاحب نے کرنا ہے‘ میں نے اگر کرنا ہوتا تو کب کا کر چکا ہوتا بلکہ ملتان میں مجھے گاڑی میں اپنے ساتھ بٹھا کر وہ سمجھ رہے تھے کہ میں اس پر خوش ہو جائوں گا؛ حالانکہ میں نے گاڑی میں انہیں اشارۃً یاد بھی دیالا تھا کہ وہ اب اس میں اور کتنی دیر لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہاشمی صاحب‘ آپ تو ہمارے دل میں بستے ہیں‘ آپ کو ن لیگ میں شامل ہونے کی کیا ضرورت ہے جبکہ انہیں شک تھا کہ اگر شامل کیا گیا تو یہ اب پھر کسی اور جماعت میں شامل ہو جائے گا حالانکہ دوسری تمام جماعتیں بھی یہی سمجھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''آج کل پارلیمنٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ افسوسناک ہے‘‘ اور اگر میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہونا اور میرے بڑھاپے کا بھی کسی نے خیال نہیں رکھنا تو میں باہر ہی ٹھیک ہوں بلکہ ملتان میں بیٹھ کر تعویز دھاگوں سے عوام کی کچھ خدمت ہی کر لوگں گا۔ آپ اگلے روز ملتان میں دُنیا نیوز سے گفتگو کر رہے تھے۔
ایک اور سازش
ایک انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میٹرو بس منصوبے میں اربوں روپے کرپشن کا انکشاف ہُوا ہے۔ اس اطلاع کے ذمہ دار آڈیٹر جنرل آف پاکستان ہیں جن کے مطابق 121.45ملین کی غیر قانونی اور زائد ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وزیر اعلیٰ جن کی ذاتی نگرانی میں یہ منصوبہ تیار ہُوا ہے، وہ ایک آڈیٹر جنرل کو قابو نہیں کر سکے حالانکہ وفاق میں انہی کے بھائی صاحب کی حکومت ہے۔ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ جو لوگ تیز رفتار ترقی کو ہضم نہیں کر سکے‘ یہ سازشیں اُنہی کی طرف سے کی جا رہی ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خاں نے ہی مل ملا کر آڈیٹر جنرل سے یہ گمراہ کُن رپورٹ تیار کروائی ہو؛ چنانچہ وزیر اعلیٰ کو چاہیے کہ ایک تو اس کے خلاف رانا ثناء اللہ سے ایک بیان دلوائیں اور دوسرے ایسی سازشوں کا قلع قمع کرنے کے لیے ایک الگ وزارت تشکیل دیں جس میں دانیال عزیز جیسوں کی حق رسی ہو سکتی ہے جو حکومت کے حق میں بیان دے دے کر پھاوے ہو چکے ہیں!
صحیفہ ۔۔۔ مکاتیب نمبر حصہ اوّل
یہ جولائی 2016ء سے دسمبر2016 ء تک کا شمارہ ہے جسے مجلس ترقیٔ ادب لاہور کی طرف سے ڈاکٹر تحسین فراقی شائع کرتے ہیں۔ 412 صفحات پر مشتمل اس دستاویز کی قیمت 400 روپے رکھی گئی ہے۔ اس کی مجلس مشاورت میں شمس الرحمن فاروقی‘ محمد سلیم الرحمن‘ ڈاکٹر محمد عمر میمن‘ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ عطا الحق قاسمی‘ افتخار عارف‘ امجد اسلام امجد‘ ڈاکٹر رئوف پاریکھ اور ڈاکٹر نجیب عارف شامل ہیں۔ مکتوب نگاران میں سے کچھ نام یہ ہیں: غلام بھیک نیرنگ‘ پروفیسر رشید احمد صدیقی‘ شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی‘ ڈاکٹر سید عبداللہ‘ مالک رام‘ ڈاکٹر شوکت سبزواری‘ ڈاکٹر گیان چند‘ رشید حسن خاں‘ شفق خواجہ‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ‘ مولانا عبدالماجد دریا بادی‘ مولانا غلام رسول مہر‘ پروفیسر حمید احمد خاں‘ مولانا امتیاز علی عرشی‘ مالک رام‘ پیر حسّام الدین چشتی‘ احمد ندیم قاسمی‘ محمد کاظم‘ خواجہ محمد زکریا ‘ رفیع الدین ہاشمی اور جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال۔ ان میں وہ مضامین بھی شامل ہیں جو مشاہیر مکتوب نگاروں پر لکھے گئے۔
سالنامہ الحمراء اور سُپوتنک
اسے لاہور سے شاہد علی خاں نکالتے ہیں اور خوشی کی بات ہے کہ یہ پوری باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ یہ جنوری2012ء کا شمارہ ہے‘344صفحات پر مشتمل اور اس کی قیمت 500 روپے ہے۔ اہم اورمعروف لکھنے میں شعرا سمیت پروفیسر فتح محمد ملک‘ الطاف حسن قریشی‘ اسلم انصاری‘ مستنصر حسین تارڑ‘ ڈاکٹر تبسم کاشمیری‘ ستیہ پال آنند ‘ ناصر زیدی‘ ڈاکٹر جواز جعفری‘ بشریٰ رحمن‘ عذرا اصغر‘ تبصرے اور گوشۂ سید مشکور حسین یاد‘ جس میں شاعر کی شخصیت اور فن پر مضامین اور ان کی شاعری کا انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ گوشۂ مزاح میں ظفر علی راجا اور دیگران۔ خوبصورت سرورق حسبِ معمول اسلم کمال کے موقلم کا نتیجہ ہے۔ اندرون سرورق دونوں صفحوں پر رنگین اشتہارات ہیں جو مزید خوشی کی بات ہے کیونکہ ادبی جرائد عام طور پر اس سعادت سے محروم ہی رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سپوتنک کا تازہ شمارہ بھی شائع ہو گیا ہے جسے لاہور سے آغا امیر حسین نکالتے ہیں۔ حسبِ معمول ایک کتاب بھی شامل کی گئی ہے۔
آج کا مطلع
مکاں لرزتے رہے‘ سیل ِغم گزر بھی گیا
چڑھا ہی تھا ابھی دریا‘ ابھی اُتر بھی گیا