ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہزاروں یتیم بچے یتیم خانوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث وہاں داخلے کے منتظر ہیں حکومت نے جس کی وجہ وسائل کی کمی بتایا ہے۔ واضح رہے کہ پورے ملک میں صرف 35یتیم خانے ہیں جہاں 3500یتیم بچوں کو رہائش‘ خوراک اور لباس کی سہولت حاصل ہے۔ اصولی طور پر ملک کے ہر ضلع میں یتیم خانہ ہونا چاہیے جسے سویٹ ہوم کہا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ یتیم خانے محکمہ بیت المال کے تحت آتے ہیں۔ قومی اسمبلی کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق 20کروڑ کی آبادی والے ملک میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت صرف 35یتیم خانے ہیں۔ حکومتی پارٹی کے رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر نے وزارت بیت المال سے دریافت کیا تھا کہ کیا ملک کے ہر ضلع میں یتیم خانے موجود ہیں‘ اور ‘ اگر نہیں تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کتنا عرصہ درکار ہے۔ رکن اسمبلی کو متعلقہ وزیر کا یہ جواب حیران کن تھا کہ ہر ضلع میں یتیم خانہ قائم کرنے کے لیے حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ وزیر موصوف نے مزید بتایا کہ ان یتیم خانوں میں داخلے کے لیے بچے کی عمر 4سے 6سال تک ہے؛ چنانچہ وہ لاتعداد بچے جو انتظار کرتے کرتے عمر کی یہ حد عبور کر جاتے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے یتیم خانے کی سہولت سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ محکمہ بیت المال کی ویب سائٹ کے مطابق لاتعداد بچے داخلے کے انتظار میں ہیں اگرچہ ان کی صحیح تعداد نہیں بتائی گئی۔ ایک ضمنی سوال کے جواب میں اسمبلی کو بتایا گیا کہ بیت المال کو ایک لاکھ چھیالیس ہزار دو سو پچھتر درخواستیں یتیم بچوں کی طرف سے داخلے کے لیے موصول ہو چکی ہیں یعنی گزشتہ ایک سال کے اندر اندر جن میں سے ایک لاکھ انیس ہزار آٹھ سو اٹھانوے درخواستیں منظور کی گئیں جبکہ باقی درخواستیں مختلف وجوہ کی بناء پر مسترد کر دی گئیں، جن میں کوائف نا مکمل تھے یا جن کے والدین کے شناختی کارڈز وغیرہ موجود نہیں تھے‘ جو محکمے کی ویٹنگ لسٹ پر ہیں کیونکہ انہیں اکاموڈیٹ کرنے کے لیے محکمے کے پاس وسائل نہیں ہیں۔
دراصل یہ اکیلا موضوع نہیں ہے جس سے حکومت کی ترجیحات کا پتا چلتا ہے بلکہ مفادِ عامّہ کا کوئی بھی شعبہ لے لیجیے‘ وہ حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے‘ وہ پینے کے صاف پانی کا مسئلہ ہو‘ تعلیمی معاملات ہوں یا صحت کے مسائل ‘ کمر توڑ مہنگائی ہو یا بے روزگاری‘ حکومت ان سے مکمل طور پر لاتعلق ہے جبکہ اس کی ترجیحات میں موٹر ویز ہیں یا اورنج لائن ٹرین منصوبے جن کا شمار90فیصد عوام کی بنیادی ضروریات سے نہیں ہے۔ حکومت کی توجہ کا مرکز صرف وہی منصوبے ہیں جو دور سے نظر بھی آتے ہوں نیز ان میں یافت کا امکان بھی زیادہ ہو۔ اور جہاں تک وسائل کی کمی کا تعلق ہے تو یہ کمی صرف عوام کے مجموعی اور بنیادی معاملات کے حوالے سے ہے جبکہ موٹر ویز پر بھی زیادہ تر تاجر، صنعت کار اور اشرافیہ ہی سفر کرتے ہیں جو حکومت کی آنکھوں کا تارا ہیں۔
اسلام میں یتیموں کے حقوق اور ان کے متعلق جو ہدایات موجود ہیں حکومت سمیت اس سے کوئی بھی لاعلم نہیں ہے جو کہ عام لوگوں سے بڑھ چڑھ کر ہیں جبکہ رسول اکرم ؐ نے متعدد مقامات پر ان کے حوالے سے ترجیحی سلوک کا درس دیا ہے حتیٰ کہ انہیں اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر حسن سلوک کا سزا وار قرار دیا ہے اور حکومت وسائل کی کمی کے جس عذر سے کام لے رہی ہے وہ ان لاکھوں یتیم بچوں کی آہ سے بھی ضرور واقف ہو گی لیکن اس کے باوجود ان بچوں کے ساتھ اس کا یہ سفاکانہ سلوک رضائے خدا سے متصادم ہے اس طرح کا ایک بھی ظلم حکمرانوں کی شامتِ اعمال کے لیے کافی ہے اور حکومت پر جو بُرے دن آ رہے ہیں‘ اس کی بڑی وجوہات میں سے ان یتیموں کی بددُعائوں کا بھی حصہ ہو گالیکن وہ انتہائی خوابِ غفلت میں ہیں جس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔
لاہور دھماکہ جتنا الم ناک ہے اتنا ہی معنی خیز بھی کہ اگر چار روز پہلے ریڈ الرٹ جاری کر دیا گیا تھا تو اس پر لاپروائی کیوں برتی گئی۔ سینئر پولیس افسروں کا اس جم غفیر میں جانا کیوں ضروری تھا اور خود کش بمبار پیدل چلتا ہوا ان افسروں کے نزدیک کیسے پہنچ گیا۔ اربوں روپے کے بجٹ سے جو سیف سٹی پراجیکٹ قائم کیا گیا تھا اس کے تحت جگہ جگہ لگائے گئے سی سی ٹی کیمروں کا عالم یہ ہے کہ اورنج ٹرین کے لیے شہر بھر میں اکھاڑ پچھاڑ کے سبب گردو غبار اڑنے سے ان کے لینز ہی دھندلا چکے ہیں اور ان سے اتنی صاف تصویر ہی نہیں آتی کہ کسی کو پہچانا جا سکے۔ سو اگر یہ کہا جائے کہ یہ دھماکہ بھی حکمرانوں کی کی سبز قدمی کا نتیجہ ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔
دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا دعویٰ کرنے والے یہ حکمران اب کیا کہتے ہیں۔ رانا ثنا اللہ اب بھی کہتے ہیں کہ پنجاب میں کراچی جیسا آپریشن کرنے کی ضرورت ہے نہ کومبنگ کی۔ کون نہیں جانتا کہ پنجاب میں حکمرانوں کی ناک کے عین نیچے کالعدم تنظیمیں نام بدل بدل کر اپنے کام میں مصروف ہیں۔ یہ بھی کسی سے مخفی نہیں کہ حکومت نے ایکشن پلان سے متعلقہ اپنے حصے کا کتنا کام کیا ہے اور سہولت کاروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے اُلٹا انہیں پولیس کی چھتری فراہم کر دی گئی ہے کہ اگر ان کے خلاف کوئی ایکشن ہونے والا بھی ہو تو پولیس انہیں نہ صرف خبردار بلکہ ادھر ادھر بھی کر دے۔
حکمرانوں کے وہ دوست دہشت گرد اب کہاں ہیں جن سے پنجاب میں کارروائیاں نہ کرنے کا وعدہ لیا گیا تھا کالعدم تنظیموں کے وہ افراد اب بھی آنکھ کا تارا ہیں جو الیکشن مہم کے دوران ان کے ساتھ باقاعدہ شریک ہوا کرتے تھے۔ حکمرانوں کو ملک اور صوبے کی سلامتی کی بجائے انہیں اگلا الیکشن جیتنے ہی کی فکر ہے جس کے لیے کسی جِن یا بلا کا تعاون بھی قبول ہے۔ قربان جائیے اس سیاست کے۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ لاہور کے علاوہ دیگر صوبوں بلوچستان‘ سندھ اور کے پی کے میں بھی دہشت گردوں کا ٹارگٹ زیادہ پولیس ہے یا سکیورٹی کے دوسرے ادارے جبکہ ہمارے دوست نجم سیٹھی کو پریشانی صرف یہ ہے کہ اب لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل کیوں کر منعقد ہو گا۔
آج کا مطلع
نیت کو استوار کیا‘ اور چل پڑے
رستے کا اعتبار کیا اور چل پڑے