جاڑا جاتے جاتے رُکا تو نہیں لیکن صبح ہوا میں پہلی سی خُنکی موجود تھی کیونکہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بارش کے ساتھ ژالہ باری ہو چکی تھی، جیسے تکلیف کہیں بھی ہو‘ محسوس سارے جسم کو ہوتی ہے۔ آسمان پر بادلوں کی ٹکڑیاں ہوں تو سورج ان میں سے چھن چھن کر عجب بہار دکھاتا ہے۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
کہیں پربتوں کی ترائیوں پہ ردائے رنگ تنی ہوئی
کہیں بادلوں کے بہشت میں گُلِ آفتاب کھلا ہوا
لیکن صوفی تبسم نے اس کی بہتر تصویر کشی کی ہے۔ شعر ہیر کی بحر میں ہے ؎
میری جان یہ شان سبحان اللہ، تیرا حسن یوں زیر نقاب چمکے
جیسے شمع قندیل میں ہو روشن‘ جیسے بادلوں میں ماہتاب چمکے
ڈاکٹر صغریٰ صدف نے بتایا ہے کہ جو ایوارڈ ہم رفعت عباس کو دے رہے تھے اور جسے قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا وہ ہم نے شاکر شجاع آبادی کو دے دیا ہے۔ پہلے ہی ایسا کر دینا چاہیے تھا کیونکہ رفعت تو ہماری اطلاع کے مطابق حکومت پنجاب میں ملازم ہیں‘ انہیں تو یہ ایوارڈ دیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔
ایک تشویشناک اطلاع یہ بھی ملی ہے کہ نقاد اور فکشن رائٹر ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کو جو اردو سائنس بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا ہے تو ان کی شعبہ تعلیم میں پہلی ملازمت ختم کر دی گئی ہے جبکہ ہم سب کا خیال یہ تھا کہ انہیں ڈیپوٹیشن پر تعینات کیا گیا ہے اور اگر اس بارے کوئی عدالتی فیصلہ یا پابندی ہے تو بھی حکومت کو کوئی درمیانی راستہ نکالا چاہیے تاکہ ان کی سابقہ ملازمت متاثر نہ ہو اور یہ کنٹریکٹ تو دو سال کا ہے جس کے بعد وہ بے روزگار ہو جائیں گے اور شاید پینشن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں اور یہ کہتے پھریں کہ ع
ہم پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
بلکہ صورت حال خدانخواستہ یہ ہو کہ نماز بخشوانے جائیں اور روزے بھی گلے پڑ جائیں۔ خدا کرے یہ اطلاع درست نہ ہو بصورت دیگر یہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔
میرے مہربانوں اور محبت کرنے والوں کی ویسے تو کوئی کمی نہیں ہے لیکن دو فون مجھے بلاناغہ یاد کرتے ہیں۔ ایک جام پور سے شاعر شعیب زمان کا جو میرا حال پوچھتے اور سلامتی کی دعا دیتے ہیں اور دوسرا ڈی ایس پی غلام عباس کا جو اخبار میں کالم بھی لکھتے ہیں اور آج کا مقطع یا مطلع مجھے پڑھ کر سناتے ہیں۔ تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور کئی بار مجھے چڑے کھانے کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔ معذرت کر چکا ہوں کیونکہ چڑے کھا کر بھی مجھے معذرت ہی کرنا ہو گی؟
ہمارے چیف ڈرائیور جناب قاسم عرف لڈو شکوہ کنان ہیں کہ کالم میں ان کے شایان ذکر نہیں کیا جاتا چنانچہ ہم آج کل ان کی کسی خوبی کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان کے ذکر خیر سے ہم اپنی عزت میں اضافہ کر سکیں۔ اپنی تعریف کسے پسند نہیں، ہم شعراء ہی کو لیجیے، داد کے لیے مرے جاتے ہیں، شعر داد کے قابل ہو نہ ہو۔ اپنی تعریف تو اللہ میاں کو بھی پسند ہے جس کی وہ بار بار تاکید اور تلقین بھی فرماتے ہیں۔ لڈو صاحب کی ایک قابل تعریف بات تو یہ ہے کہ اپنی تعریف پسند کرتے ہیں اوران کی دلیل بھی بجا ہے کہ گھر کا کالم نویس ہوتے ہوئے بھی ان کی تعریف نہ کی جائے۔ شاعر اور ہمارے دیرینہ دوست آفتاب احمد شاہ کا پھر فون آیا کہ وہ چوتھی مارچ کو ملنے کے لیے آئیں گے۔ یہ بھی بتایا کہ ان کی بیٹی بہت عمدہ شاعر نکلی ہے جس کا مسودہ بھی وہ ساتھ لائیں گے۔ کسی اچھے شاعر کے بیٹے یا بیٹی کا اتنا ہی اچھا شاعر ہونا اب تک ہمارے تو تجربے میں نہیں آیا۔ ناصر کاظمی کے دو بیٹے شاعر ہیں اور کچھ لوگ انہیں شاعر مانتے بھی ہیں ع
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
پھر یہ ہے کہ برگد کے نیچے برگد تو کیا‘ گھاس بھی نہیں اگتی۔ اصولی طور پر بھی خاندان میں ایک شاعر ہونا ہی کافی ہوتا ہے۔ مثلاً اگر دو ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کو تسلیم ہی نہیں کریں گے تو آپ کیا کر لیں گے۔ ناصر کاظمی کے بیٹوں کا غالباً یہ خیال ہے کہ والد صاحب کا نام کچھ زیادہ روشن نہیں ہے، اس لیے اس بارے کوشش کرنی چاہیے۔
اچھے شعر کی طرح اگر کوئی ٹوٹکا ہاتھ لگ جائے تو اسے عام کرنا بھی میں ضروری سمجھتا ہوں اور ٹوٹکا یہ ہے کہ اگر ہم وزن گاجر‘ سیب‘ موسمی اور چقندر کا جوس نہار منہ نوش جاں کریں تو آپ کا سارا سسٹم ٹھیک کام کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ بھی نہیں ہے کہ ع
ایں نسخہ از بیاض مسیحا نوشتہ ایم
بلکہ یہ آفتاب اقبال کی ریسی پی ہے جس کا خاکسار پر ابھی تک کوئی الٹا اثر نہیں پڑا ہے۔ یہ بھی ہے کہ اس عمر میں ٹوٹکے بھی بے اثر ہو جاتے ہیں۔ کسی کلاسیکی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
بھلا درستی اعضائے پیر کیا ہووے
کہ جیسے رسی سے ٹوٹا کواڑ باندھ دیا
بعض دوستوں کا خیال ہے کہ ہم بار بار اپنے بڑھاپے کا ذکر دوسروں کو دھوکہ دینے کے لیے کرتے ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔
اور اب آخر میں خانہ پری کے طور پر یہ تازہ غزل
ساتھ رکھنا تھا جسے اُس کو جُدا رہنے دیا
دل کے اندر ہی محبت کو پڑا رہنے دیا
میں نکالوں گا تو اس میں سے ہی دروازہ کوئی
تھام لی دیوار میں نے‘ راستا رہنے دیا
آگ سی اندر لگی رہتی تھی اُس کی یاد سے
رات بھر ہی یہ دیا میں نے بجھا رہنے دیا
اُس کی چیزوں کو نہیں چھیڑا ہے اُس کے بعد بھی
ہُو بہو اپنی جگہ پر جو بھی تھا‘ رہنے دیا
اصل میں ہر شے کی اُس کو بھی ضرورت تھی بہت
دیکھ لو اس نے ہمارے پاس کیا رہنے دیا
یہ جو رونق سی لگی رہتی ہے‘ کافی ہے بہت
دل کے اِس جھگڑے کا میں نے فیصلہ رہنے دیا
آگ سی اندر لگی رہتی تھی اس کی یاد سے
رات بھر ہی یہ دیا میں نے بجھا رہنے دیا
کام تھے سارے اسی کے ساتھ، میں نے اس لیے
خلق ہی سے لو لگائی اور خدا رہنے دیا
شہر میں تھے قابل دید اور بھی چہرے، ظفرؔ
نام اُس کا صفحۂ جاں پر لکھا رہنے دیا
آج کا مقطع
لگاتا پھر رہا ہوں عاشقوں پر کُفر کے فتوے
ظفرؔ، واعظ ہوں میں اور خدمتِ اسلام کرتا ہوں