باہر موسم بدلے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اندر کا موسم بھی تبدیل نہ ہو کہ باہر کے ساتھ اندر کا تعلق مستقل ہے۔ رات بھر بوندا باندی اور پھر صبح کو بھی بارش کا تسلسل جاری رہا۔ رات کی بوندا باندی کا تو پتا ہی نہیں چلا‘ البتہ سو کر اٹھا ہوں تو منظر ہی بدلا ہوا تھا۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
ابھی جو سو کے اٹھا ہوں تو کچھ نہیں موجود
زمیں کدھر گئی ہے‘ آسمان کہاں گیا ہے
اور اگر آسمان کو بادلوں نے غائب کر رکھا ہو اور زمین کو پانی نے تو یہی لگتا ہے کہ دونوں کہیں کھو گئے ہیں۔ بارش کے بعد کا تماشا منیر نیازی کی آنکھ سے دیکھیے ؎
بدّل اُڈے تے گُم اسمان دِسیا
پانی لتھے تے اپنا مکان دِسیا
بہرحال‘ یہ بارش روٹھ کر جاتے ہوئے جاڑے کو واپس لے آئی ہے‘ عارضی طور پر ہی سہی اور اس کے ساتھ ہی یہ اطلاع بھی ہے کہ یہ موسم مزید پانچ چھ روز تک جاری رہے گا۔ سو‘ اندر کے موسم نے جو انگڑائی لی ہے تو دور کے لو گ بھی جیسے نزدیک آ گئے ہیں‘ کچھ بھولے ہوئے اور کچھ ایسے جن کے بارے میں فرض کر لیا گیا ہو کہ انہیں بھیلا جا چکا ہے؛ حالانکہ ایسا ہوتا نہیں ہے‘ یعنی ؎
اک یاد کا چھلکا سا پڑا رہتا ہے دل میں
لگتا ہے ابھی اس کو بھلایا نہیں میں نے
پھر اس عمر میں کسی کو مسلسل یاد رکھنا بھی تو خاصا مشقت کا کام ہے کہ اپنا آپ بھی یاد رہ جائے تو بسا غنیمت ہے‘ یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ کیا یاد ہے اور کیا بھول گیا ہوں اور صورت حال کچھ اس طرح کی رہتی ہے کہ ؎
اگر کچھ یاد رہتا ہے مجھے تو بھول جانا ہی
میں کیسا یاد رکھتا ہوں، میں کیسا بھول جاتا ہوں
ابر کُھل کر نہ برسے تو بھی کوئی بات نہیں‘ موسم کے پیاسوں کے لیے بوندا باندی ہی بہت ہے ورنہ لالچ کی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔
پھر کسی کے یاد آنے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ بہر صورت پاس ہو کیونکہ یاد آنے والا جہاں ہے خوش ہے تو اس کا ہونا ہی کافی ہے۔ اندر تھوڑی سی ہلچل مچی رہے تو اس سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس سے حالتِ شعر میں ہونے کا امکان بھی کچھ کم بار آور نہیں ہو سکتا۔ یہ مسالہ میرے لیے تو بے حد ضروری ہے ‘ یعنی ؎
شعر کہنے کا بہانہ ہُوا تُو
میری جانب جو روانہ ہُوا تُو
پھر اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے کہ میرے بندوں سے محبت کرو اور آپ کا محبوب بھی تو اللہ تعالیٰ ہی کا بندہ ہوتا ہے، جس سے محبت کرتے ہوئے آپ گویا اللہ میاں کو بھی خوش کر رہے ہوتے ہیں جو عبادت سے کسی طور کم نہیں ہے اور آدمی کو عاقبت کا کوئی سامان بھی کرنا چاہیے۔ مولانا حالی نے بھی تو کہہ رکھا ہے کہ ؎
یہی ہے عبادت‘ یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دُنیا میں انساں کے انساں
چنانچہ کوئی اگر آپ کے کام آتا ہے‘ یا آپ کسی کے کام آتے ہیں تو اس سے بڑی نیکی اور کیا ہو سکتی ہے جبکہ عمر کے ایک حصے میں تو عشقِ مجازی بھی عشقِ حقیقی کے برابر ہو جاتا ہے اور آدمی خواہ مخواہ اللہ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہو جاتا ہے۔
اور یہ موسم آدمی پر کسی وقت بھی آ سکتا ہے اور اس کا انتظار کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اللہ میاں کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے اور یہ دُنیا کا خاتمہ بھی ہرگز نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی پھلدار شاخ کسی بھی وقت آپ کی طرف جُھک سکتی ہے۔ رجائیت پسند لوگ ہی زندہ اور کامیاب رہتے ہیں جو یہ سمجھتے ہوں کہ ؎
آثار کوئی چاند چمکنے کے بہت ہیں
اسباب ابھی دل کے دھڑکنے کے بہت ہیں
کسی کا اچھا لگنا یا اچھا ہونا ہی کوئی معمولی بات نہیں ہے‘ مثلاً ؎
یوں بھی ہو سکتا ہے یک دم کوئی اچھا لگ جائے
بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے
اور اب خانہ پُری کے لیے یہ تازہ غزل:
ہم خود غلط نہ ہوں تو یہ دُنیا غلط نہیں
آنکھوں کا ہے قصور‘ تماشا غلط نہیں
جانا کدھر تھا اور روانہ ہیں کس طرف
یہ راستا غلط ہے‘ ستارہ غلط نہیں
ہم اس کو ٹھیک طرح سے کرتے نہیں ذرا
ورنہ جناب‘ کام ہمارا غلط نہیں
یہ کارِ عشق ٹھیک بھی ہو گا کہیں کہیں
حق تو یہ ہے کہ سارے کا سارا غلط نہیں
اچھا لگے نہ آپ کو یہ اور بات ہے
انصاف اگر کریں تو میں کہتا غلط نہیں
اپنا مطالبہ ہی زیادہ تھا بیش و کم
ویسے بھی اعتراض تُمہارا غلط نہیں
ہم تجھ سے دُور ہیں تو بہت کچھ درست ہے
حتیٰ کہ فاصلہ بھی کچھ ایسا غلط نہیں
اندازہ ہم نے جو بھی لگایا ہے آپ کا
کافی غلط سہی‘ مگر اتنا غلط نہیں
نیت ہی ڈوبنے کی نہ تھی اپنی اے ظفرؔ
دریا تو ہے چڑھا ہوا‘ دریا غلط نہیں
آج کا مطلع
مکاں لرزتے رہے‘ سیلِ غم گزر بھی گیا
چڑھا ہی تھا ابھی دریا‘ ابھی اتر بھی گیا