وکیل:مقدمہ جتنا لمبا ہو‘ چلتا رہتا ہے‘ وکیل کی فیس بھی چلتی رہتی ہے۔ مقدمات لڑنے کے علاوہ اس کے فرائض میں ججوں سے لڑنا جھگڑنا بھی شامل ہے اور وہ فرائض سے کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوتا۔ منقول ہے کہ ایک شخص سے قتل ہو گیا۔ اس نے وکیل کو منہ مانگی فیس دی اور کہا کہ مجھے پھانسی سے بچا لیں‘ بیشک عمر قید کروا دیں‘ وہ ہر پیشی پر وکیل صاحب کو یاد دلاتا کہ عمر قید والی بات یاد رکھنا۔ بحث ہوئی اور عدالت نے ملزم کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ کمرہ عدالت سے نکل رہے تھے کہ سائل بولا:
''سر میں آپ کا بے حد مشکور ہوں کہ عمر قید پر ہی جان چھوٹ گئی‘‘ جس پر وکیل صاحب بولے: ''میں نے بڑی مشکل سے تمہیں عمر قید کروائی ہے‘ جج صاحب تو تمہیں ویسے ہی بری کر رہے تھے‘‘۔
پسندیدہ اشعار
میں شعر بھی لکھوں گا‘ وکالت بھی کروں گا
لازم نہیں یہ بات کہ محنت بھی کروں گا
فیس تو لے لی ہے پوری
منشیانہ چل رہا ہے
بیوی کولوں کھا لئی بحث دے اندر مات
کلی اُتے ٹنگیا رہ گیا کالا کوٹ
چور:یہ بھی باقاعدہ ایک پیشہ ہے جبکہ ڈکیتی اس کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ منقول ہے کہ ایک چور واردات کے لیے جاتے ہوئے اپنے لڑکے کو بھی ساتھ لے گیا تاکہ وہ بھی رفتہ رفتہ اس فن میں مہارت حاصل کر سکے۔ وہ ایک گھر میں گھسے اور اس کمرے تک پہنچ گئے جہاں گھر کا مالک سو رہا تھا۔ اندھیرے میں چور کا پائوں کسی چیز سے ٹکرایا تو مالک کی آنکھ کھل گئی اور وہ بولا کون ہے؟ جس پر چور نے منہ سے بلی کی آواز نکالی‘ مالک کروٹ بدل کر سو گیا۔ کچھ دیر کے بعد لڑکے کا پائوں کسی چیز سے ٹکرایا تو آہٹ سن کر مالک بولا‘ کون ہے؟ جس پر لڑکا بولا‘ دوسری بلی!
مزید منقول ہے کہ ایک نوجوان چوری کے الزام میں دوسری بار عدالت کے روبرو پیش کیا گیا تو اس کا والد بھی ہمراہ تھا۔ جج نے لڑکے کے باپ سے کہا:
''تم اپنے بیٹے کو سمجھاتے کیوں نہیں؟‘‘ جس پر لڑکے کا باپ بولا:
''جناب! میں تو اسے بہت سمجھاتا ہوں لیکن یہ کم بخت پھر پکڑا جاتا ہے!‘‘
ایک چور ایک صاحب کے گھر چوری کی غرض سے گیا۔ وہ صاحب جاگ رہے تھے۔ انہوں نے چور کو قابو کر لیا اور تھانے کی طرف لے چلے۔ راستے میں چور بولا:
جناب آپ کے گھر میرا جوتا رہ گیا ہے‘ اگر اجازت ہو تو لے آئوں؟ انن صاحب نے کہا: جائو جلدی سے لے آئو۔ کچھ عرصے کے بعد وہی چور پھر انہی صاحب کے ہاں چوری کرنے گیا اور پھر پکڑا گیا۔ صاحبِ خانہ نے اُسے پہچان لیا اور بولے: آج تو میں تمہیں تھانے پہنچا کر ہی چھوڑوں گا۔ راستے میں چور بولا:
جناب‘ آپ کے گھر میری جرابیں رہ گئی ہیں‘ اگر اجازت ہو تو لے آئوں؟
''تم بہت چالاک اور مکاّر ہو‘ پہلے بھی تم دھوکہ دے کر بھاگ گئے تھے اس لیے میں تمہیں جانے نہیں دوں گا۔ تم یہیں ٹھہرو میں بھاگ کر لے آتا ہوں!‘‘ وہ صاحب بولے۔
ڈاکٹر:ہسپتال کے ڈاکٹر کا کام مریضوں کا علاج کرنا کم اور ہڑتالیں کرنا زیادہ ہے۔ ایک شخص نے کمپائونڈر سے شکایت کی کہ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے مریض کو تپِ محرقہ بتایا تھا لیکن وہ نمونیہ سے مر گیا! جس پر کمپائونڈر بولا:
''میں نہیں مانتا‘ ہمارے ڈاکٹر صاحب جس مرض کی تشخیص کرتے ہیں‘ مریض اسی مرض سے مرتا ہے!‘‘ ایک سرجن کے بارے مشہور تھا کہ وہ آپریشن کرکے قینچی یا تولیہ وغیرہ مریض کے پیٹ میں ہی بھول جایا کرتا ہے۔ ایک مریض کو اگرچہ یہ بات معلوم تھی لیکن کوئی دوسرا سرجن دستیاب نہیں تھا اس لیے ڈرتے ڈرتے اُس نے اسی سے آپریشن کروا لیا۔ ڈاکٹر چلا گیا لیکن تھوڑی دیر بعد پھر آ گیا اور بولا:
کسی نے میرا ہیٹ تو نہیں دیکھا؟ مریض یہ سنتے ہی بے ہوش ہو گیا!
منقول ہے کہ ایک مریض سرجن کے پاس گیا‘ جس نے معائنہ کے بعد کہا کہ آپریشن بہت پیچیدہ ہے اور کافی مہنگا بھی۔ جس پر مریض نے کہا کہ پیسوں کی کوئی بات نہیں‘ پھر ڈاکٹر بولا کہ اس میں رسک زیادہ ہے یعنی دس میں سے صرف ایک مریض بچتا ہے۔ اس پر مریض نے منہ لٹکا لیا تو ڈاکٹر صاحب بولے:
''میں اب تک نو ایسے مریضوں کا آپریشن کر چکا ہوں جو سب کے سب اللہ کو پیارے ہو گئے‘ لیکن تم تو دسویں ہو‘ تمہیں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
نرس:نرسوں کی دو قسمیں ہیں یعنی فیمیل نرس اور میل نرس۔ البتہ فیمیل نرس والا مریض دیر سے صحتیاب ہوتا ہے کیونکہ اس کی اپنی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد صحتیاب نہ ہو۔
منقول ہے کہ ایک مریض نے خوبصورت نرس سے کہا:
''میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا‘‘ اس پر نرس بولی:
''تمہارے زندہ رہنے کے امکانات ویسے بھی بہت کم ہیں کیونکہ ساتھ والے بیڈ پر کھڑے ڈاکٹر نے تمہاری بات سُن لی ہے‘ میں جس کی منگیتر ہوں!‘‘
کچھ مریض ڈاکٹر کی بجائے نرس کے زیر علاج رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں‘ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ نرس کے ہاتھ میں زیادہ شفا ہوتی ہے!
آج کا مطلع
کسی پر جانفشانی کر رہا ہوں
یہ دولت آنی جانی کر رہا ہوں