میں نے پانچویں جماعت سٹیٹ ہائی سکول بہاولنگر سے پاس کی جو اب ڈگری کالج ہے۔ وہاں سے اوکاڑہ آ کر میں آریہ ہائی سکول میں داخل ہو گیا جہاں آٹھویں تک میں نے تعلیم حاصل کی جس کے بعد ایم بی ہائی سکول اوکاڑہ میں شفٹ ہو گیا جہاں سے میٹرک کیا۔ آریہ سکول میں سبھی ٹیچر ہندو یا سکھ تھے۔ وہاں پراتھنا میں جو بھجن گائے جاتے تھے ان میں سے ایک مجھے اب بھی یاد ہے اور جو اس طرح سے تھا۔ اوم ہی رنیا دربار ساما ورتا تاگرے بھو تسیا چھایا پتی رے دیا سو، شا نو دے ماں
ہو سکتا ہے اس میں کوئی غلطی بھی رہ گئی ہو۔ دوسرا میرے ساتھ یہ بھی ہوا اور غالباً یہ سب کے ساتھ ہوتا ہو گا کہ آپ سکول میں ہوں یا کالج میں‘ آپ کا کوئی نہ کوئی محبوب ٹیچر ضرور ہوتا ہے۔ سو میرے محبوب ٹیچر وہاں گیانی سُرجن سنگھ تھے۔ شاعری کا شغف رکھتے تھے‘ چنانچہ ایک دن انہوں نے سب طلبہ سے کہا کہ کل سب نے ایک ایک نظم لکھ کر لانی ہے۔ میں نے اتوار یعنی چھٹی کے دن پنجابی میں نظم لکھی جس پر انہوں نے مجھے ایک روپیہ انعام دیا‘ یہ میری پہلی کاوش تھی۔
میری دوسری کاوش فارسی میں تھی۔ پروفیسر اقبال احمد خاں جو فارسی کے استاد تھے۔ میرے سب سے زیادہ پسندیدہ استاد تھے‘ فارسی پڑھاتے تھے اور پرانی انارکلی میں رہائش تھی جہاں میں بعد میں بھی ان سے ملنے جاتا رہا۔ یہ ایف سی کالج کی بات ہے جہاں سے فسٹ ایئر کلیئر کر کے میں گورنمنٹ کالج چلا گیا۔ فسٹ ایئر ہی میں‘ میں نے فارسی میں یہ قطعہ کہا جو سادہ ہونے کی وجہ سے اب تک یاد ہے اور کالج میگزین ''فولیو‘‘ میں چھپا بھی۔
دل شکستہ سلام می گوید / زار و خستہ سلام می گوید
دست و پایش بہ بستی و رفتی / دست بستہ سلام می گوید
تقسیم ہوئی تو ظاہر ہے کہ ہندو لوگ بھارت چلے گئے۔ جانے والوں میں میرے دوست رمیش چندو بھی تھے جو لالہ رتن لعل کے صاحبزادے تھے اور ہمارے ہمسائے بھی تھے۔ تاہم گیانی سُرجن سنگھ کا میں نے بھارت تک پیچھا کیا۔ وہ اس طرح سے کہ ''ملاپ‘‘ اور روزنامہ ''پرتاب‘‘ امرتسر کو خط لکھے کہ اگر گیانی سُرجن سنگھ پڑھیں تو مجھ سے رابطہ کریں‘ چنانچہ کچھ دن بعد ان کا محبت بھرا خط آ گیا۔
ایم بی ہائی سکول میں میرے پسندیدہ انگلش ٹیچر سلیم صاحب تھے۔ آٹھویں جماعت ہی کا ذکر ہے کہ پڑھاتے پڑھاتے فوک ڈانس کا لفظ آ گیا جس کا ترجمہ انہوں نے عوامی ناچ بتایا۔ میں کھڑا ہو گیا اور کہا کہ سر لوک ناچ کیسا رہے گا؟ مجھے اپنے پاس بلا کر شاباش دی‘ یہ میری کوئی خصوصی قابلیت وغیرہ نہیں تھی بلکہ ادبی رسالوں کے شوق کی وجہ سے تھا جبکہ شفیق الرحمن کا مزاحیہ مضمون حماقتیں میں نے ''ادب لطیف‘‘ میں پڑھا تھا اور اس کے بعد شفیق الرحمن کو کبھی مس نہیں کیا۔ وہ جہاں بھی چھپے۔
یہ تو تھا ماضی کا ایک ورق جو میں نے خواہ مخواہ اُلٹ دیا۔ حال کچھ اس طرح سے ہے کہ آج آپو کے بیٹے کی سالگرہ ہے‘ ساری فسٹ فیملی اکٹھی ہو گی‘ اور بہت مزہ آئے گا۔ اس کے علاوہ یہاں شہتوت کی ''فصل‘‘ پک کر تیار ہو چکی ہے‘ کچھ لوگوں نے شہتوت اتارنے کے لیے ایک شاخ کو ذرا زیادہ جھکایا تو وہ تڑخ گئی۔ تاہم دوسرے دن انہیں شاید خود ہی عقل آ گئی۔ انہوں نے ایک ایک کر کے پیڑوں تلے چادر بچھائی‘ تنے کو دو چار بار جھنجھوڑا جس سے پکے ہوئے شہتوت نیچے آر ہے۔ دوسرے‘ سفید تتلیوں کا ایک پورا گروہ صبح کے وقت پھولدار پودوں کے مزے لیتا ہے‘ حیرت اس بات پر ہے کہ یہ ساری کی ساری سفید تتلیاں ہیں۔ سٹرس کے پودوں سے پھول جھڑنے اور پھل لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ دھوپ تاپنے سے بھی محرومی شروع ہو چکی ہے۔ ایک کوّے کے سائز کا پرندہ اگلے روز شور مچاتا ہوا میرے سر پر سے گزرا جس کے پر فیروزی رنگ کے تھے۔ پہلے اسے کبھی نہیں دیکھا۔
پچھلی بار خانہ پری کے نام سے جو غزل چھپی تھی۔ فیصل ہاشمی نے اوسلو سے فون کر کے اس کی تعریف کی اور یہاں اقتدار جاوید اس کے لیے رطب اللسان تھے۔ میں نے کہا کہ میں تو واقعی یہ کام اب ترک کرنے والا ہوں جس پر وہ بولے کہ ہرگز نہیں‘ ایسی غزل تو کوئی بھی نہیں کہہ رہا اور آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ چنانچہ میں موصوف کے بھرے میں آ گیا ہوں اور ہر ہفتے تازہ غزل پیش کرنے کا وعدہ اُن سے کر لیا ہے۔ اگر غزل آپ کو پسند نہ آئے تو بد دعائوں میں اقتدار جاوید کو یاد رکھیے۔ چنانچہ یہ رہی اس ہفتے کی غزل۔ آئندہ یعنی اگلے اتوار سے اسی واردات کی کوشش کرتا رہوں گا :
وہ معتبر نہ سہی‘ اعتبار کرتے رہے
نہ آنے والے کا بھی انتظار کرتے رہے
یہ لوگ اپنے ہیں‘ دریا بھی سارا اپنا ہے
سو‘ جو بھی آیا اُسے آرپار کرتے رہے
بالآخر اُس نے ہمیں کام پر لگا ہی لیا
یہ عشق ہی تھا جسے روزگار کرتے رہے
ہمیں سفر کی اجازت نہیں ملی تھی ابھی
تو گھر ہی بیٹھ کے خود کو غبار کرتے رہے
وہ آ رہا تھا کہیں سے نہ جا رہا تھا کہیں
وہ راستا جسے ہم اختیار کرتے رہے
چُھپے ہوئے کو چُھپایا‘ یہی کمال کیا
تھا آشکار‘ جسے آشکار کرتے رہے
ہوا کا زور تھا سارا ہمارے چار طرف
چڑھائو کرتے رہے یا اُتار کرتے رہے
دکھا رہے ہیں وہی لاتعلقی اپنی
ہم اپنے آپ کو جن میں شمار کرتے رہے
ملے ہوئے تھے وہ پہلے ہی‘ اُن کے ساتھ‘ ظفرؔ
جنہیں بلائوں سے ہم ہوشیار کرتے رہے
آج کامقطع
ذاکرہ تھی کوئی اور خوب رُلاتی تھی‘ ظفر
مجلسیں پڑھتی ہوئی دل کے عزا خانے میں