سلمیٰ اعوان کے سفر نامے پڑھ پڑھ کر ہی ہم پھاوے ہو چلے تھے کہ اوپر سے انہوں نے ایک نیا گُل کھلا دیا ہے، اس کا ذکر بعد میں کریں گے‘ پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے عاشق بھی ہیں۔ وہ میری شاعری کی عاشق ہیں تو میں ان کی صحت مندی کا‘ جو ان کی تحریروں سے بھی چھلکی بلکہ پھٹی پڑتی ہے۔ چنانچہ کسی محفل میں ٹاکرا ہو جائے تو ہم بغل گیر ہو کر ملتے ہیں۔ اور‘ جو لوگ سلمیٰ اعوان سے واقف ہیں وہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ بغل گیری سے کس قدر ''بھر پور‘‘ ہوتی ہو گی۔ اس عمر میں عشق تو ویسے بھی مذاق لگتا ہے لیکن کسی کو اس پر اختیار بھی تو نہیں ہے۔ چنانچہ ''دلّی والی گرل فرینڈ چھوڑ چھاڑ کے‘‘ یہ معاملہ کیا ہے۔ اس عمر کا عشق ویسے بھی ہومیو پیتھک قسم کا ہی ہوتا ہے یعنی اگر فائدہ نہیں دیتا تو نقصان بھی نہیں کرتا۔
ان کی کتاب کا عنوان ہے ''عالمی ادب کی فروزاں قندیلیں‘‘ جو کوئی ساڑھے تین سو صفحات کو محیط ہے‘ جسے پبلشنگ ہائوس یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور نے چھاپا اور قیمت 750روپے رکھی ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے ''ان اجنبی
سرزمینوں کے نام جنہوں نے مجھے خوش آمدید کہا ‘اور اپنے لعل و گوہر سے میرا تعارف کروایا‘‘۔ پیش لفظ''آپ کی توجہ کی طالب ‘‘ کے عنوان سے مصنفہ نے خود لکھا ہے جن مشاہیر کے ذکر سے اس کتاب کے صفحے روشن ہیں‘ ان میں شاعر بھی ہیں ‘مغنی اور موسیقار بھی‘ نقاد اور فکشن رائٹر بھی۔ یوں سلمیٰ اعوان نے عالمی ادب کے سمندر کو ایک طرح سے کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ان کا تعلق بیرونی دُنیا کے مختلف مُلکوں سے ہے۔ ان مصنفین کا تفصیلی تذکرہ اور ان کے فن اور زندگی پر اس کتاب میں بھر پور روشنی ڈالی گئی ہے یعنی اس ایک کتاب سے آپ دنیا بھر کے ادب اور ادیبوں سے خاصی حد تک روشناس ہو جاتے ہیں۔
ان مشاہیر کے نام بالترتیب یہ ہیں: نذار قبانی‘ مولانا عمیدی‘ بورس پیسٹر ناک ‘الیگزینڈر سرگیو وچ پشکن‘ لیوٹا لسٹائی اور صوفیہ ٹالسٹائی‘ دوستووسکی اور اینا دوستو وسکی‘ مولانا جلال الدین رُومی‘ یونس ایمرے‘ رابندر ناتھ ٹیگور ‘ یرکرمیرتن ‘ابی سکارا‘ سعدی یوسف‘ ابو نواس‘ جرڈرڈویل‘ جان کیٹس‘ گوزیو کار دوسی اور محمود درویش۔
کچھ ایسی ہی واردات بک ہوم لاہور والے ہمارے دوست رانا عبدالرحمن نے ڈالی ہے۔ انہوں نے نہ صرف متعدد مشاہیر کا ذکر کیا ہے بلکہ علیٰحدہ علیٰحدہ کتابوں میں ان کی اہم تصانیف میں سے منتخب تحریریں بھی شامل کی ہیں‘ جیسا کہ فرانزکافکا کے ناول قلعہ کا ترجمہ طارق عزیز سندھو نے کیا ہے‘ فریڈرک نیٹشے کی شہرہ آفاق تصنیف کا ترجمہ ریاض محمود انجم نے ماورائے خیرو شر کے عنوان سے کیا ہے۔ والٹیئر کی کتاب کا ندیدکا ترجمہ سجاد ظہیر نے کیا ہے‘ دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کا ترجمہ جہنم کے نام سے مولانا عنایت اللہ دہلوی نے کیا ہے ۔جبکہ گوئٹے کی کتاب فائوسٹ کا ترجمہ اسی عنوان سے ڈاکٹر سید عابد حسین نے کیا ہے۔ ہر کتاب کی قیمت600روپے رکھی گئی ہے جبکہ کا ندید کی قیمت500روپے ماورائے خیرو شر کی 800روپے اور فرانز کا فکاکی کتاب قلعہ کی قیمت 500روپے ہے۔
آپ یہ سب کتابیں پڑھ جائیں تو ایسے ہی ہے جیسے سارا عالمی ادب یا کم از کم اس کے بہترین نمونے آپ نے گھول کر پی لیے ہیں۔ قارئین کا وہ طبقہ جو انگریزی زبان سے آشنا نہیں ہے‘ اس کے لیے یہ کتابیں ایک نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ زیریں جماعتوں کے طلبہ و طالبات کے لیے تو یہ ایک بیش بہا تحفہ ہے، ٹائٹل دیدہ زیب اور فکر انگیز ہیں اور گیٹ اپ اعلیٰ۔ مترجمین نے خاص طور پر بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے اور ترجمہ بھی رواں اور سلیس ہے جس پر اصل کا گمان ہوتا ہے ان کتابوں کے تقابل سے ہم اپنے ادب اور ادیبوں کا موازنہ بآسانی کر سکتے ہیں اور یہ بھی کہ ہمارے ادب پر اگر دوسرے ممالک کے ادب کے اثرات ہیں تو کہاں تک ہیں۔ فکشن میں بطور خاص مغربی ادیبوں نے ہمارے فکشن رائٹرز کو متاثر کیا ہے جس میں فرانز کا فکا کا نام بطور خاص لیا جاتا ہے۔اور اب آخر میں خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل:؎
ایسا بھی نہیں در خورِ اظہار نہیں تھے
ہم حسبِ ضرورت بھی طلب گار نہیں تھے
دیتے نہیں کچھ وہ تو گلہ کیا کریں اس کا
جو دے دیا ہم اُس کے بھی حقدار نہیں تھے
اُس راہ پہ جو ہم نے چُنی تھی تری جانب
بس دُھوپ تھی چاروں طرف‘ اشجار نہیں تھے
دیکھا کیے ہم تب بھی ترا راستہ اکثر
آنے کے ترے جب کوئی آثار نہیں تھے
یہ حُسنِ تغافل بھی توجہ سے نہیں کم
حالانکہ ہم اس کے بھی سزاوار نہیں تھے
دُنیا نے بھی تادیر خبر لی نہ ہماری
کچھ ہم بھی ترے خواب سے بیدار نہیں تھے
آتے ہیں ترے پاس دوا ہو جنہیں مطلوب
کچھ وہ بھی چلے آئے جو بیمار نہیں تھے
ہم اِس کو اسیری ہی سمجھتے ہیں کہ آخر
آزاد ہی کب تھے جو گرفتار نہیں تھے
ہم اپنے کنارے پہ‘ ظفر‘ خوش ہیں وگرنہ
جو رنگ تھے اُس پار وہ اِس پار نہیں تھے
آج کا مقطع
محبت سربسر نقصان تھا میرا ظفر اب کے
میں اِس سے بچ بھی سکتا تھا‘ مگر ہونے دیا میں نے