پیارے علاّمہ اقبالؔ صاحب! السلام علیکم۔ میں 70 ویں یوم آزادی پر آپ کے مزار پر حاضر ہوں اور زائرین کی کتاب میں اپنے تاثرات قلمبند کر رہا ہوں۔ ان لوگوں نے مجھے لوہے کے تاروں میں پروئے ہوئے پھولوں کی ایک چیز تھما دی ہے اور کہا ہے کہ یہ پھولوں کی چادر آپ کے مزار پر چڑھانی ہے۔ میں نے انہیں کہا بھی کہ بدبختو‘ چادر تو وہ ہوتی ہے جسے اپنے اردگرد لپیٹا بھی جا سکے‘ یہ کس طرح کی چادر ہے۔ اب آپ ہی بتائیں یہ ملک جس کا خواب آپ نے دیکھا تھا‘ وہ کیا ترقی کرے گا‘ چنانچہ اس خواب کو بے خوابی بلکہ بدخوابی ہی کہنا چاہیے۔
علاّمہ صاحب! میں نے آپ کی تعلیمات پر بہت عمل کیا ہے‘ مثلاً آپ نے خُودی کو بُلند کرنے کیلئے کہا تھا جو میں نے اتنی بلند کر دی ہے کہ دُوربین کے بغیر نظر ہی نہیں آتی جبکہ اس کا زیادہ تر حصہ پچھلے دنوں مشن جی ٹی روڈ کے دوران بُلند ہوا ہے۔ اب میں سوچتا ہوں کہ اسے کچھ کم کیا جائے تاکہ یہ کسی کو نظر بھی آ سکے‘ ہیں جی؟ مجھے آج کل بھوک ذرا کم لگتی ہے‘ آپ حکیم الامت بھی ہیں‘ آپ کے پاس کوئی بُھوک لگانے والا نسخہ بھی ضرور ہو گا جو آپ خواب میں آ کر بتا سکتے ہیں۔
علامہ صاحب! میں اس مُلک میں انقلاب برپا کرنا چاہتا ہوں۔ اس کا آئین بدلنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہاں انصاف سستا ہو اور سب کے لیے ہو۔ میں غریبوں کی حالت بہتر بنانا چاہتا ہوں کہ مُلک میں کوئی بُھوکا نہ سوئے‘ کوئی بچہ اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ رہے۔ سب کو صحت کی سہولتیں اور سستا علاج ملا کرے۔ میں اس مُلک کو تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ یہ باتیں میرے مُنہ سے اچھی تو نہیں لگتیں لیکن کہنے میں آخر کیا حرج ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ تیس پینتیس سال آپ کی حکمرانی رہی ہے تو یہ سب کچھ کیوں نہیں کیا۔ تاہم ہم بھی فارغ نہیں بیٹھے رہے بلکہ اور ضروری کاموں میں مصروف رہے جو کہ اپنی جگہ بہت ضروری تھے تاہم‘ میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی بہت کچھ زیادہ ہو سکتا ہے‘ اگرچہ نااہل ہونے کے بعد یہ کام ذرا مشکل ضرور ہو گیا ہے‘ تاہم جس زور شور سے میں اپنی بحالی کی مُہم چلا رہا ہوں اس کا مُثبت نتیجہ ضرور نکلے گا۔
علامہ صاحب! یہ باتیں کافی عرصے سے میرے دل میں تھیں‘ صرف انہیں ظاہر کرنے کا موقعہ نہیں ملا تھا۔ خیر یہ سب کچھ بھی ہوتا رہے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ فوری طور پر ووٹ کے تقدس اور حُرمت کو بحال کیا جائے جس کے غائب ہو جانے کی وجہ صرف کرپشن ہے۔ علامہ صاحب! میں جمہوریت کو بھی بچانا چاہتا ہوں جس کے لیے ارکان اسمبلی کو مجھ سے ملاقات کرنے کے لیے چھ چھ ماہ تک انتظار نہ کرنا پڑے اور میں پارلیمنٹ میں بھی آیا کروں گا اور موٹرویز وغیرہ پر لعنت بھیج کر ہسپتال اور کالج بنانے پر توجہ دوں گا۔ لیکن مجھے ایک جُنبش قلم سے فارغ کر کے میرے ساتھ جو بہت بڑا ظلم روا رکھا گیا ہے‘ اس پر آپ کو بھی افسوس ہوا ہو گا کیونکہ آپ بھی سمجھتے ہوں گے کہ منتخب ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے۔ اب آپ آرام فرمائیں‘ اگلے یوم آزادی پر پھر حاضر ہوں گا‘ خدا حافظ۔ اور اب کتابی سلسلے ''تسطیر‘‘ میں سے کچھ شاعری۔ سب سے پہلے ابرار احمد کی یہ نظم اور غزلوں سے کچھ اشعار :
ایک منظر
گلی میں گو اندھیرا تھا ؍ اندھیرے کی لاٹھی کو تھامے ہوئے ؍ چند قدموں سے ہم نے اپنی راہ لی تھی ؍ ہم اتنی جلدی میں تھے؍ کہ اپنے پائوں کے نشان تو بریف کیسوں میں بھر لیے؍مگر پائوں وہیں چھوڑ دیئے؍ ابُو نے اپنی عینک بکسے میں رکھ لی؍آنکھیں میز کی دراز ہی میں چھوڑ آئے؍اماں نے امام ضامن میرے بازو میں باندھا؍اور جلدی میں میرے بازو گلی کی نکڑ پر ہی چھوٹ گئے؍ٹرین ابھی پلیٹ فارم پر ہی رُکی تھی؍لوگ ایک دوسرے کو روندتے ہوئے بھاگے جا رہے تھے؍ کہ سب کے سب جلدی میں تھے؍ہم اتنی جلدی میں تھے؍اور جلدی میں اکثر ایسا ہوتا ہے؍مُصلّے ہمارے ساتھ تھے؍ اور نمازیں وہیں بُھول گئے؍طاق میں دھری کی دھری رہ گئیں؍ دعائیں‘ اگر بتیاں اور لوبان؍ بیوی نیندیں رکھنا بھول گئی تھی؍ گما دیئے تھے اُس نے سارے خواب؍ اور لے آئی تھی اپنے ساتھ حیرت زدہ سنسان آنکھیں؍ ہم اتنی جلدی میں تھے ؍ کہ ہمارے صندوق دوسروں کے صندوقوں میں بدل گئے؍ جن میں تھیں ذلتیں‘ ہجریں؍ در در کی ٹھوکریں؍ اور لمبے ہوتے ہوئے خوف کے دیو؍چلتے چلتے کسی نے ایک گٹھڑی تھما دی تھی؍ گٹھڑی کیا تھی ایک امانت تھی؍بھاگتے اور سنبھالتے ہوئے ہمارے سروں سے گر پڑی؍اور اس سے باہر نکل آئیں؍چیخیں‘ بھوک‘ بچوں کی یتیمی‘ کٹی پھٹی عصمتیں؍ایک پڑوسی جو اس دوڑ میں ہمارے ساتھ ہی تھا ؍ اپنی ہنسی ایک دُھول بھرے بستر میں چھوڑ آیا ؍ جیسے ہم اپنی مُسکراہٹیں بُھول آئے تھے؍کہ ہم اتنی جلدی میں تھے۔
اُس کے پانی نے دیا حُکم تو ہم ڈُوب گئے
اُس کی مٹّی نے پکارا تو کنارے نکل آئے
ہم اُس کے حُسن کا جادُو بھی چڑھنے دیتے ہیں خود پر
وہ اپنے آپ پر کچھ پڑھ کے دم بھی کرتے رہتے ہیں
(فرحت احساس)
خدا سے جن کا تعلق نہیں بچا کوئی
سفر میں یاد اُنہیں بھی دُعائیں آتی ہیں
اُنہیں خبر ہی نہیں کب کا بُجھ چُکا ہوں میں
مری تلاش میں اب بھی ہوائیں آتی ہیں
(سلیم انصاری)
گھر نے دیکھ لیا آتے پردیسی کو
کھل اُٹھے دروازے‘ تالے پھُول ہوئے
(حمیدہ شاہین)
میری اِس تنہائی کی اب کوئی تو تاویل ہو
کیوں اکیلا چل رہا ہوں کارواں ہوتے ہوئے
(محمد علی منظرؔ)
آج کا مطلع
معمول کے خلاف محبت زیادہ ہے
یا آج کل جناب کو فرصت زیادہ ہے