"ZIC" (space) message & send to 7575

کاک ٹیل اوراقتدار جاوید کی نظم

اگلے روز ہمارے ہاں بھی بادل کھُل کر برسا‘ ہمارے ہاں اس لیے لکھا کہ شہر اب اس قدر پھیل گیا ہے کہ بارش کہیں ہوتی ہے اور کہیں نہیں۔ بلکہ اب کے تو ساتھ ژالہ باری بھی ہوئی۔ ضرور کسی نے تازہ تازہ سر مُنڈوایا ہو گا۔ میں نے تو ہرگز نہیں کیونکہ سر مُنڈوانے کے لیے سر پر بال بھی ہونا ضروری ہیں جبکہ ادھر تو ایک پرانے لطیفے کے مطابق یہ ہے کہ ایک ایسے ہی صاحب نے حجامت بنوائی تو حجام نے ان سے ریٹ سے زیادہ پیسے مانگ لیے جس پر وہ صاحب معترض ہوئے تو حجام بولا کہ آپ کی حجامت میں مجھے بہت مشکل پیش آئی ہے کیونکہ آپ کے بال مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کاٹنا پڑے ہیں۔
ٹی وی پر بھارتی گانے سننا بھی معمول کی بات ہے کہ یہ مجھے انسپائر کرتے ہیں اور شعر کہنے کو جی چاہتا ہے‘ بیشک وہ بے جان ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کے علاوہ ان کا کوئی گانا بھی رقص کے بغیر نہیں ہوتا۔ سلمان خاں کا مُنہ بڑا ہے اور قد قدرے چھوٹا‘ کترینہ کیف کے ساتھ کھڑے ہوں تو صاف پتا چلتا ہے کہ کترینہ کا اُن سے بھی قدر ذرا نکلتا ہوا ہے۔ کترینہ کا ڈانس لاجواب ہے۔ قد کے حوالے سے ایشوریا رائے بھی مار کھا گئی ہیں اسی لیے انہیں رقص بھی ہائی ہیل پہن کر ہی کرنا پڑتا ہے۔ فلم دیکھنے اس لیے نہیں جاتا کہ اب کون اتنا تردد کرے کہ اس کے لیے بھی ٹی وی کافی ہے۔
ایک اور مصیبت یہ بھی ہے کہ مطالعہ کو جی نہیں چاہتا‘ حتیٰ کہ اخباری کالم بھی زیادہ تر چھوٹ ہی جاتے ہیں۔ اپنا کالم دیکھ لیتا ہوں کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں رہ گئی۔ تبصرے کے لیے آنے والی اکثر کتابیں بھی بس سونگھ کر ہی رہ جاتا ہوں۔ چند ہی کتابیں ہیں اور وہ بھی شاعری کی‘ جنہیں نہ صرف پورا پڑھنا بلکہ ان پر لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ گھر سے بہت کم نکلتا ہوں اس لیے کالم کے لیے بھی صحیح فیڈ بیک میسر نہیں آتا۔ اس کے لیے بھی اخبارات پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے!
سابق بیورو کریٹ دوست آفتاب احمد شاہ کا‘ بقول اُن کے‘ آخری مجموعہ غزل تیار ہے جس پر مجھے دیباچہ لکھنے کا حکم دے رکھا ہے۔ ان کی دُختر نیک اختر بھی شاعرہ ہیں جن کے پہلے مجموعہ پر بھی دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی لیکن میں طرح دے گیا۔ اب بتاتے ہیں کہ ان کی کتاب پر دیباچہ محمد اظہار الحق لکھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ صاحب موصوف کے پہلے مجموعہ غزل ''فرد جرم‘‘ کا دیباچہ میں نے لکھا تھا۔ کئی سال پہلے جب آپ کمشنر ڈیرہ غازی خاں تھے تو وہاں جو مشاعرہ کروایا اس پر صدارت مجھی سے کروائی۔ میں نے بہت لیت و لعل کی کہ اتنے سینئر شاعروں جن میں احمد ندیم قاسمی اور منیر نیازی بھی شامل تھے‘ کی موجودگی میں میرا صدارت کرنا کسی طور پر درست نہیں ہے لیکن انہوں نے ایک نہ مانی‘ چنانچہ میں نے صدارت کم کی اور شرمندہ زیادہ ہوتا رہا۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ دیباچہ نویسی ہے بھی ایک فضول کام اور دوسرے میں نے اس کام سے توبہ بھی کر رکھی ہے‘ اس لیے اس عذاب سے بہرصورت جان چھڑانا پڑے گی۔
یہ گپ شپ اس لیے بھی لگا رہا ہوں کہ سیاسی کالم لکھ لکھ کر ناک میں دم آ گیا تھا اور اب تو اس لیے بھی جی نہ چاہا کہ میرا پسندیدہ موضوع گفتگو سابق وزیراعظم ہی کی ذات بابرکات ہوا کرتی ہے لیکن اب چونکہ وہ ایک طرح سے دوبارہ مظلومیت کا جامہ اوڑھنے والے ہیں۔ اس لیے مرے کو مارے شاہ مدار کی کیفیت پیدا ہو جاتی۔ ویسے بھی حکمرانوں پر تنقید نہ کریں تو ہمارا کالم پڑھے گا کون؟ ورنہ خدانخواستہ اس میں کسی ذاتی پرخاش کا عمل دخل ہرگز نہیں ہے۔ لیکن اب بھیِ‘ بقول شیخ رشید احمد‘ سانپ ابھی زخمی ہوا ہے‘ مرا نہیں (خدانخواستہ)۔
دیومالا
(باپ کی آنکھ چشمہ ہے؍ جو جاری رہتا ہے؍ زمزم کے چشمے کی صورت) لفظوں کے خوابیدہ معنوں میں؍ سکتوں کی گہری خموشی میں؍ اعراب کی سخت بے چینی میں؍ رس بھرے جملوں میں خود کو تحلیل کرتی ہوئی شاعری؍ دیومالا بھری شاعری؍ اس سے پہلے؍ ترے دیومالا بھرے باپ کے دل میں تُو اتری؍ دل اس کا مسکن بنایا؍ دکھایا اسے شب کے کہرے میں سویا ہوا گھر؍ بنایا؍ اسے صبح کاذب میں چپ چاپ کِھلتا ہوا پھول؍ اِس‘ دیومالا کا اور باپ کا؍ سات رنگوں بھرا ست برابربر ابر مساوی مساوی ؍ مرے باپ نے اپنا جو آدھ لکھنے میں برتا؍ نہیں جو نہیں کہہ سکا؍ اس کے ہونٹوں پہ دن رات لرزا؍ مگر لفظ بننے نہ پایا؍ وہ الفاظ جو باپ کے حلق میں رک گئے تھے؍ وہ اب میرے الفاظ ہیں؍ ٹپ ٹپ برستے چلے جا رہے ہیں؍ میں‘ اب باپ کے آدھ کو لے کے نکلا ہوں؍ یوں جیسے؍ عباس اک دن علم لے کے نکلا تھا؍ صدیوں کے گھمسان میں؍ باپ لا شکل کا پھول؍لالی،سیاہ شام کے چوڑے ماتھے کی لالی؍ وہ دم بھر کو اک خاص خطے کے اوپر لرزتی ہے؍ جیسے اُترتی ہوئی دھوپ؍ گم صم پہاڑی مکانوں کی؍ ٹیڑھی چھتوں سے کسی واہمے کی طرح؍ نیچے گرتی ہے؍ یہ دھوپ، جیسے کوئی آنکھ جھپکے؍ بس اتنی ٹھہرتی ہے؍ لالی، لہو رنگ رومال؍ لالی، انگاروں بھری گرم ہوتی تغاری نہیں؍ لالی، رنگوں بھرا باپ؍ لاشکل کا پھول؍ جو اک دفعہ اور بس اک دفعہ کِھلتا ہے؍ باپ۔ سچ؍ رات کی سرد‘ بے مہر‘ بے نام‘ چپ چاپ؍ عمروں کے نادیدہ زینے سے؍ نیچے اُترتی گھڑی؍اور اس کو جیسے پکڑنے جکڑنے کی اِک پل ریاضت؍ ریاضت کے دوران ہوتے وظائف؍سیاہ رنگ کی دلق کے نیچے؍ادھڑی ہوئی ایک ٹکڑی کے مٹ میلے؍ دھاگے کی جنبش کے دوران؍ وقفوں سے چلتی ہوئی؍گوپی چند راولی؍ سُرسری‘ دیغ کی تہہ میں پس خوردہ ناطاقتی؍اور اک گھونٹ پانی کی خواہش میں؍آتے لگاتار آتے ہوئے یاد؍ جیسے فراموش کردہ لطائف‘ صحیفے صحائف؍گھڑی؍ جس میں کوئی زمانہ دن اور دوپہریں؍یہ اک وقت اک ساتھ بہتی ہوئی تین نہریں؍زمانے کی تحضیص سے جیسے عاری زمانہ؍زمانے سے عاری گھڑی؍ باپ سچ؍ وقت کے پانیوں کا نتھارا ہوا روپ؍ روشن کلائی پہ کاڑھا ہوا مور؍ اور مور کے ناچنے کی گھڑی؍شیرِ مادر اُترنے کی چندرا گھڑی (ناتمام) باقی نظم انشاء اللہ کل۔
آج کا مقطع
سنپولیے کچھ اور بھی حقدار تھے‘ ظفرؔ
میں اپنے آپ اُٹھ کے خزانے سے آ گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں