"ZIC" (space) message & send to 7575

سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان ازسید انیس شاہ جیلانی

ہم بھی سنبھل کر بیٹھ گئے‘ چونکہ سکھا پڑھا کر لے جائے گئے تے اس لیے بے پر کی کی کوئی ہانک ہی نہیں سکتے تھے اور وہ خود بھی اتنے ''استاد‘‘ ہیں۔ ماشا اللہ کہ شہ نشین سے کوئی اُکھڑی ہوئی بات کہنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔ دوچار منٹ کی تقریر اچھی خاصی تھی۔ پاک ہندو پریم سبھا کی کارکردگی پر زور ضرورت سے زیادہ تھا۔ دوستی اور تعاون کی باتیں۔ پاکستان کی ترقی کی باتیں۔ ہمارے صدر ضیاء الحق کا جنگ نہ کرنے کا معاہدہ زبانی جمع خرچ نہیں ہے۔ ایک پرانی غزل کے ایک شعر سے خوب کام نکالا :
تمہارے غنچہ و گل سے غرض نہیں مجھ کو
اِدھر اشارۂ بادِ صبا سے آیا ہوں
رئیس صاحب گزشتہ اکیس برس سے میں دیکھ رہا ہوں‘ وقت گزاری یا پھر بیگار ٹالنے کے لیے مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں۔ اُونگھتے رہیں گے‘ داد باند از بیداد ہو گی اور جب ان کی باری آئے گی تو کوئی گھسی پٹی زودہضم نہیں‘ بیحد ثقیل غزل پڑھ ڈالیں گے۔ ان کا ایک اپنا انداز ہے۔ عبدالعزیز خالد تو بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں لیکن رئیس صاحب سے بھی عام آدمی لُطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ غزل فلسفیانہ سوچ بچار اور غوروفکر کی متحمل کہاں ہو سکتی ہے۔ یہ تو شوخ چنچل اور الہڑہے۔ ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ۔ درد و فراق کے قصوں میں بھی یہ تو بوجھل ہو جائے ہے۔ لاکھ کہوں حضرت‘ کوئی نئی چیز عطا کریں۔ بیاض ہر تقریب کے لیے نئی ''تیار‘‘ کر لیں گے۔ پڑھنے کا موقع آئے گا تو ایسی بدحواسی میں ورق اُلٹیں پلٹیں گے جیسے قیامت کا سامنا ہو۔ چھانٹ کر سناٹا چھا جائے ترنم نہیں تحت اللفظ میں اپنا کلام پیش کرتے ہیں۔ تحت اللفظ بڑا جاندار ہے۔ خوب کراری آواز اور اس پر ان کے غزلانہ تیور۔ بالکل پارے کی طرح بیتاب اور بیقرار۔ پرانی غزلیں یہ کہہ کر پڑھا کرتے ہیں لوگوں کے لیے نئی ہیں‘ یہی ہندوستان میں‘ رئیس غزل سے زیادہ نظم کے شاعر ہیں مگر وہ نہیں مانتے‘ میں تو غزل کا شاعر ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو اردو ادب میں رئیس کی غزل گوئی موضوع بن چکی ہوتی۔ رہے قطعات تو ایک طرح کی تاریخی حیثیت تو رکھتے ہیں لیکن بات پہلو بہ پہلو رات گئی بات گئی والی بھی تو ہے۔ کنور صاحب نے رئیس صاحب کی قطعہ نگاری کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہم نے ظفر علی خاں کو بھی پڑھا ہے۔ وہ بھٹک جاتے تھے‘ ان کے اشعار وزن سے گر بھی جاتے تھے‘ یہ عیب رئیس کے ہاں نہیں ہے۔ یہ تو بیدی صاحب کی مہمان نوازی کا عالم تھا۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں۔ عروضی غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں۔ پکڑنے والوں نے غالب جیسوں کو بھی دار پر لٹکا رکھا ہے‘ رئیس صاحب بھی کبھی کبھار پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں۔ مگر یہ ان کے ہاں عام بات نہیں ہے اور زودگوئی میں تو گرفت سے نکل ہی جاتا ہے آدمی۔ مشاعرہ کچھ جم نہیں سکا۔ پہلی خرابی تو یہ تھی کہ سب کے سب پٹے ہوئے تھے صدر خدا جانے کون تھے‘ نام یاد نہیں رہا۔ بار بار ان کی آمد کا اعلان ہوتا رہا۔ وہ تو آخر تک نہیں آئے یا شاید آئے‘ البتہ کرشن موہن صاحب آئے جس کا کنور صاحب نے باقاعدہ اعلان کیا۔ لیجئے تشریف لا رہے ہیں ہمارے ملک کے مشہور ارب پتی۔ کرشن موہن صاحب گوشت کا ایک چلتا ہوا پہاڑ جو لڑھکتا ہوا میرے اور محمود صاحب کے پہلو میں براج گیا۔ بشرٹ پتلون خوشبو میں بسے ہوئے‘ ہاتھوں میں سفید سونے کے کڑے پڑے ہوئے۔ مصاحبوں میں نوجوان سکھ خود بھی جوان۔ میں تو کرشن موہن صاحب سے متعارف تھا ''شبنم شبنم‘‘ کرشن موہن کا مجموعہ کلام حیرت شملوی مرحوم کا عطا کردہ نسخہ آج بھی محفوظ ہے اور دل میں اُترے ہوئے یہ شعر ؎
کیا کہوں ہم نفس شب فرقت
کس قدر غم نواز ہوتی ہے
ہُوا ہے ایک مدت سے تمہارا
ہمارا دل ہمارا دل نہیں ہے
میری حالت تباہ کرنے میں
آپ نے کون سی کمی کی ہے
اور کیا میری وفائوں کا صلہ وہ دیتے
اپنا غم مجھ کو دیا یہ بھی صلا ہے تو سہی
آپ آئیں تو مرے دل کو سکوں آ جائے
آپ کے پاس مرے دکھ کی دوا ہے تو سہی
ارب پتی کرشن موہن اور شاعر کرشن موہن دونوں اپنی اپنی جگہ حقیقت ہیں۔ ارب پتی کی زیارت ہو گئی شاعر مفلس اور نادار ہو گا نہ کہیں دیکھا نہ سنا۔ عزیز وارثی زیادہ پی گئے تھے وہ بار بار بلکہ مسلسل کنور صاحب کے کانوں میں کچھ نہ کچھ کہتے اور ہدایات لیتے رہے۔ خدا خدا کر کے رئیس صاحب نے غزلوں کا جھٹکا کیا۔ کوئی آدھی کوئی پونی سُنائی اور اُدھر محفل تمام ہوئی۔ ہاتھ کے ہاتھ نوٹوں سے لبریز ایک لفافہ رئیس صاحب کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا میری جیب میں پہنچا۔ گنے تو پورے تین ہزار۔ تین ہی ہزار اختر فیروز کو دیئے گئے۔ اختر فیروز دل میں بالکل اسی طرح کھَلا کہ شاعر ہیں جیسے بزم انصاری‘ پاکستان میں شعراء کی یہ تیسری جنس ہنوز متعارف نہیں ہوئی۔ یہ سب رئیس صاحب کی شاعر گری کا اعجاز ہے اور کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ کا کمال۔ گھوڑے گدھے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا۔ رئیس صاحب کی قیمت تین ہزار‘ اختر فیروز بھی تین ہزاری‘ لُطف آ گیا۔ عام طور پر مشاعروں میں معاوضے کیلئے بھٹکنا پڑتا ہے۔ ایک مشاعرہ پڑھنے کے کراچی میں دو سو طے ہوئے تھے لیکن اختتام مشاعرہ پر منتظمین معذرت اور رئیس صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئے تھے۔ جگن ناتھ آزاد کیا کہتے ہیں یہ بھی دیکھ لیں۔ ارے ہاں یہ بتانا تو بھول ہی رہا ہوں۔ ذرا ہماری بھی تو ہوا بندھے۔ تعریفیں ہوں۔ جگن ناتھ نے شعر اچھے سنائے اور سامعین میں شامل ہو کر وقفے وقفے سے نعرہ لگایا‘ کیا انیس جیلانی نہیں پڑھیں گے۔ میں نے کہا حضرت میں سُن رہا ہوں‘ یہی غنیمت ہے۔ اس پر مسکراہٹیں پھیل جانی چاہیے تھیں جو نہیں پھیلیں...
آج کا مطلع
مرنے والے مر جاتے ہیں
دُنیا خالی کر جاتے ہیں

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں