"ZIC" (space) message & send to 7575

’’چراغ زار‘‘ اختر عثمان کا تازہ مجموعۂ غزل

چراغ زار ممتاز و معروف شاعر اختر عثمان کی غزلوں کا مجموعہ ہے‘ جسے رومیل ہائوس آف پبلی کیشنز نے چھاپا اور اس کی قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ انتساب منظر نقوی‘ ناراض دوست صاحبزادہ تابش کمال اور ڈاکٹر صلاح الدین درویش کے نام ہے۔ آغاز میں شاعر نے اپنے دو فارسی شعر درج کئے ہیں ؎
کاریست کاربخیہ کہ تازیست ماندہ بر
آہستہ رو‘ بہ سوزنی زودن نمی شود
روغن زخوں کشیدہ بہ انداخت برخسک
کیں آتش از شرار فزودن نمی شود
فارسی زبان سے واقفیت غزل گو شاعر کے لیے اس بناء پر بھی ضروری ہے کہ غزل کے کم و بیش جملہ محاکات و معاملات اسی زبان سے آئے ہیں کہ اس صنف کی آمد پر ایران ہی سے ہوئی تھی بلکہ میں نے تو ایک جگہ لکھا بھی تھا کہ جس شاعر کی فارسی جتنی کمزور ہو گی اس کی شاعری بھی اُتنی ہی کمزور ہو گی۔ ہمارے مرحوم دوست شہزاد احمد کی فارسی بس واجبی سی ہی تھی۔ ایک بار شعر سُنا رہے تے جس کا پہلا مصرعہ اس طرح پڑھا ع
اب مجھے لائق گردن زدنی کہتے ہو
میں نے کہا‘ یہ کیا کر رہے ہو‘ گردن زدنی ہی کافی ہے جس کا مطلب ہے گردن مارنے کے لائق اس کے بعد اس نے مصرعہ تبدیل کرکے اس طرح کرلیا ''دوستو اب مجھے گردن زدنی کہتے ہو‘‘دوسری خوش آئند بات یہ ہے کہ اختر عثمان نے نظم کے بعد ایک بار پھر غزل سے رجوع کیا ہے بلکہ اندرون سرورق کے اندراج کے مطابق موصوف کی دیگر مطبوعات اس طرح سے ہیں :
قلم رو،ہم کلام
کچھ بچا لائے ہیں
ابدتاب، ستارہ ساز
زبر طبع کتابیں :
تراش خراش (اردو تنقید)، صدپارہ (طبع زاد فارسی غزلیں)
چنیدہ
(اردو کی پچاس کلاسیکی غزلیں)
اشک آباد (اختر عثمان کے منتخب مرثیے)
بھجن رس (اختر عثمان کے ہندی بھجن کا انتخاب)
دیوان میرؔ فارسی (مرتبہ اختر عثمان)
زبان شیشہ (عمر خیام کی رباعیات کا منظوم اردو ترجمہ)
عالمی دب (دیگر زبانوں کی شاعری کا منظوم اردو ترجمہ)
Tranquil poems (Slected Poemus of Akhter Uman 
(رویل سویل (پٹھواری شعری مجموعہ)
Razor Edged (English Essays)
جس طرح شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا‘ اسی طرح غزل بھی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ سو‘ اختر عثمان کی غزلوں کے بارے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ یہ غزلیں ''ہیں‘‘ جبکہ یہ صنف اس قدر پامال ہو چکی ہے کہ غزل کا تازہ شعر کہیں سے ڈھونڈنا ہی پڑتا ہے۔ اختر نے اپنی غزل کو فارسی تڑکا لگا لگا کر اسے مزید متمول کر دیا ہے حتیٰ کہ غالبؔ کی اردو شاعری بھی ایک طرح سے فارسی میں باقاعدہ ملفوف ہے اور اس کے مصرعوں کے مصرعے فارسی میں ہیں‘ مثلاً اس شعر کا پہلا مصرعہ ؎
بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغ محفل
جوتری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا
اگرچہ یہ بیدل کے اس شعر ہی کی ایک دوسری شکل ہے بلکہ براہ راست اس شعر کا ترجمہ ہے ؎
بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغ محفل
ہر کہ از بزم تو برخواست پریشاں برخواست
بیدل چونکہ غالبؔ کا گرُو تھا اس لیے اس نے اس سے استفادہ کرنا اپنا حق سمجھا۔ چنانچہ اختر عثمان کی غزل مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے اور اپنے اندر وہ تمام لوازمات رکھتی ہے جوغزل کو غزل بناتے ہیں جس کی تفصیلات بیان کرنا اس سربر آوردہ شاعر کے ساتھ مذاق کے برابر ہو گا۔ اس کے چند اشعار دیکھیے۔
محبتوں ہی سے فرصت نہیں کہ نفرت ہو
میں کیا کروں کہ مجھے وقت ہی نہیں ملتا
خمارِ خواب میں پھول ایسا جھومتا ہوا تو
حصار شب میں کہیں خاک پھانکتا ہوا میں
کہاں وہ دُور کہ ہم سے ہزارہا تھے یہاں
کہاں یہ وقت کہ تمثال تک نہیں ملتی
بھلے اک عمر میں نے بات کی تنہائی کاٹنی
مگر اب گفتگو نے اور تنہا کر دیا ہے
عجب خسارہ ہے اکثر قلمروِ دل کا
وہ جانتا ہی نہیں جس کے نام کر چکے ہیں
رات کا آخری پہر‘ زہر بھری ہوئی ہوا
لمسِ لباسِ یار سے اور ہری ہوئی ہوا
سخن کی تاب نہیں‘ بس اشارہ کافی ہے
پلک پہ ٹھہرا ہوا اک ستارہ کافی ہے
تجھے بھولے کوئی ہموار دماغ
تیرے پامال کہاں بھولتے ہیں
بہانہ ساز سہی‘ دل ہے‘ کیا کیا جائے
عجیب وضع کی مشکل ہے‘ کیا کیا جائے
پہلے تو قریہ قریہ ہوا کھینچتی پھری
جوں خس پھر ایک موجۂ سیلاب لے گیا
کتاب میں کوئی دیباچہ نہیں‘ صرف پسِ سرورق ظفر سید (بی بی سی) کی انگریزی زبان میں تحسینی رائے درج ہے۔ اندرونِ سرورق شاعر کی ایک چنیدہ غزل شامل کتاب ہے۔
آج کا مقطع
کیا زبردست آدمی ہو‘ ظفرؔ
عیب کو بھی ہنر بنا دیا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں