اب عملی کام کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے گا : شاہد خاقان عباسی
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''اب عملی کام کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے گا‘‘ کیونکہ پہلے تو سارا سلسلہ زبانی کلامی ہی چل رہا تھا‘ تاہم عملی طور پر بھی تشہیر کی مد میں کام ہو رہا تھا جبکہ ریلیف صرف مفلس اور نادار حکمرانوں ہی کو مل رہا تھا کیونکہ ان کی سوچ اور فکر کی مفلسی کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے جبکہ اب مقدمات کے ذریعے انہیں مالی لحاظ سے بھی مفلس کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور لندن وغیرہ میں جو دو چار جھگیاں انہوں نے ڈال رکھی تھیں ان پر بھی سوال جواب ہو رہے ہیں جو کہ جمہوریت کے ہرگز حق میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان اور چین کے درمیان عوامی سطح پر دوستی کا مضبوط رشتہ قائم ہو گا‘‘ جبکہ حکومتی سطح پر یہ رشتہ پہلے ہی کافی مضبوط ہے اور سی پیک کی تعمیر میں کرپشن کی چھوٹی موٹی شکایتوں سے اس رشتہ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ بلکہ اس سے یہ رشتہ اور بھی مضبوط ہو گا۔ آپ اگلے روز چینی سفیر اور عمران کھوکھر سے ملاقات کر رہے تھے۔
اتنے زخم نہ لگائو کہ جذبات قابو میں نہ رہیں : نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''اتنے زخم نہ لگائو کہ جذبات قابو میں نہ رہیں‘‘ کیونکہ یہ جو سارہ جلوہ دکھا رہا ہوں یہ جذبات قابو میں ہونے کا ہے‘ اور اگر یہ قابو سے باہر ہو گئے تو اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ شیخ مجیب کو باغی بنایا گیا‘ اور اب مجھے باغی بنایا جا رہا ہے جبکہ میری حب الوطنی کی گواہی مودی صاحب اور الطاف بھائی بھی دے سکتے ہیں بلکہ کلبھوشن یادیو بھی‘ جن کا مارے حُب الوطنی کے میں نے کبھی نام تک نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ ''انصاف مہنگا ہے‘ وکیلوں کو فیسیں دے دے کر تھک گیا ہوں‘‘ جنہوں نے ایک دھیلے کا ریلیف لے کر نہیں دیا بلکہ اُلٹے سیدھے مشوروں سے سارا کیس ہی خراب کر دیا ہے‘ اس لیے اصل سوال تو انہی سے بنتا ہے کہ مجھے کیوں نکلوایا۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں سُوراخ کرتا ہے‘‘ جبکہ ہم پرات میں کھاتے اور مزید کھانے کے لیے اُسے بچا کر بھی رکھتے ہیں۔ آپ اگلے روز سپریم کورٹ کے باہر وکلاء سے خطاب کر رہے تھے۔
رُوکھی سُوکھی کھا کر اپنے وسائل پیدا کرینگے : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''روکھی سوکھی کھا کر اپنے وسائل پیدا کریں گے‘‘ کیونکہ پراٹھے اور چُپڑی ہوئی روٹیاں ختم کر چکے ہیں‘ اب روکھی سوکھی کھا کر بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ کیسی لگتی ہے‘ تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ روکھی سوکھی بھی ہمارے سامنے سے اُٹھائی جانے والی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''منفی اور الزامات کی سیاست کرنے والے بچ نہیں پائیں گے‘‘ جبکہ ہم مثبت سیاست کرنے کی پاداش میں پکڑے جا رہے ہیں‘ بس یہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی مثبت ہو گئی تھی‘ اس لیے اگر اب موقعہ ملے گا تو اس کا خیال رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم محدود وسائل کو عام آدمی کی ضروریات پوری کرنے میں استعمال کریں گے‘‘ کیونکہ لامحدود وسائل پہلے ہی لامحدود اخراجات پر خرچ ہو چکے ہیں جنہیں دشمنوں نے شاہی اخراجات کا نام دے رکھا ہے اور اسی وجہ سے اُن کے پیٹ میں مروڑ بھی اُٹھ رہے ہیں جس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے۔ آپ اگلے روز پریس کلب کے منتخب عہدیداروں سے ملاقات کر رہے تھے۔
اگر عوام نے چاہا تو اسی طرح انکی خدمت کرتے رہیں گے : ثناء اللہ زہری
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ ''اگر عوام نے چاہا تو اسی طرح عوام کی خدمت کرتے رہیں گے‘‘ کیونکہ یہ خدمت بالکل اسی طرح کی تھی جو ہمارے قائد پورے پاکستان میں سرانجام دے رہے تھے لیکن سپریم کورٹ نے صرف غلط فہمی کی بناء پر اُنہیں پکڑ لیا جبکہ ادھر میرے سیکرٹری بیچارے اسی طرح کسی غلط فہمی میں خواہ مخوا پکڑے گئے ہیں حالانکہ ان پر صرف کروڑوں کی کرپشن کا الزام تھا جبکہ ہمسائے صوبے کے ایک صاحب کے گھر سے ہی اربوں روپے برآمد ہو گئے تھے جو انہوں نے ایک فلاحی ادارہ قائم کرنے کے لیے جمع کر رکھے تھے‘ اور اگر فلاحی کاموں میں بھی اسی طرح رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں تو یہ ملک کیسے ترقی کرے گا‘ اوپر سے مجھے استعفیٰ پر مجبور کر دیا گیا حالانکہ ہمارا پاناما سے کوئی تعلق تھا نہ اقامہ سے۔ آپ اگلے روز مستعفی ہونے کے بعد بیان دے رہے تھے۔
جیل کہانی
یہ اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی جاوید راہی کی تصنیف ہے جسے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل لاہور کینٹ نے چھاپا اور جس کی قیمت 800 روپے ہے۔ کتاب کے سرورق پر تحسینی رائے دینے والوں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں‘ ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی جبکہ اندرونی فلیپ جبار مرزا اور محمد فاروق چوہان کے قلم سے ہیں۔ پیش لفظ مصنف کا قلمی ہے۔ آغاز میں ایک صفحے پر عبدالستار عاصم کی رائے درج ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان لکھتے ہیں کہ جاوید راہی کی کرائم کہانی ہر بار ایک نیا کرب‘ انوکھا المیہ اور دلدوز حقائق لیے ہوتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں قیام پاکستان کے بعد صحافت مشن نہیں رہی انڈسٹری بن گئی ہے۔ ایسی باتیں کرنے والوں کو میں جاوید راہی کی کرائم کہانیاں پڑھنے کا مشورہ دوں گا۔ جاوید راہی صحافت کو عبادت کی طرح کر رہے ہیں۔ اللہ پاک انہیں زیادہ سے زیادہ انسانی مسائل سے آگاہی کی ہمت اور ارباب بست و کشاد کو اُن کے مسائل کے حل اور جرائم کی روک تھام کی توفیق دے۔ آمین!
کرائم سٹوری چونکہ دلچسپ ہوتی ہے اس لیے اس کتاب کے قابل مطالعہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ آفتاب اقبال نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ اگر ہر کہانی کا ایف آئی آر نمبر بھی درج کر دیا جاتا تو اس کے امر واقعہ ہونے کا مزید ثبوت میسر آ سکتا اور اس صورت میں ان کی ڈاکومنٹری بھی بنائی جا سکتی ہے۔ ٹائٹل سمیت پیشکش نہایت عمدہ ہے۔ اس میں مصنف کی اپنی جیل کہانی کے علاوہ 21 کہانیاں شامل ہیں۔ میری طرف سے بھرپور مبارکباد!
آج کا مطلع
ڈالا ہُوا کہیں نہ نکالا ہُوا ہُوں میں
پھر بھی یہاں کسی کا حوالہ ہُوا ہُوں میں