زاہد مسعود اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کے ممتاز اور معتبر شاعر ہیں جبکہ انہیں جدید شاعر کہنا زیادہ درست ہو گا جو نئے ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سنیارٹی سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ''چھوٹی چھوٹی نظمیں‘‘ ان کی نظموں کا مجموعہ ہے جو واقعی چھوٹی چھوٹی ہیں۔ میری اپنی رائے میں بھی‘ اور جس کا اظہار میں کئی بار کر چکا ہوں کہ نظم مختصر ہو تو اچھی بھی زیادہ لگتی ہے اور اس کے عیب و ہنر کا اندازہ بھی بہت جلد ہو جاتا ہے جبکہ غزل نے قاری کو ویسے بھی اختصار پسند بنا دیا ہے کہ ایک شعر میں سارا قصہ تمام ہو جاتا ہے۔
اسے بک ہوم نے چھاپا اور قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ انتساب زین اور دانیال کے نام ہے۔ دیباچہ جانے پہچانے شاعر اور نقاد شفیق احمد خاں نے لکھا ہے جبکہ اندرونی سرورق کی تحریر جانے پہچانے شاعر اعجاز کنور راجہ کے قلم سے ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
''زاہد مسعود کا نام ادبی حوالوں میں ایک معتبر، متحرک اور سدا بہار شخصیت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ قومی ایوارڈ تمغۂ حسن کارکردگی اور اس کے علاوہ ان کی پنجابی اور اردو تخلیقات پر دیگر قومی ایوارڈز میرے اس دعوے پر دلیل ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے نظر انداز کر دیئے جانے والے رویوں اور مسائل کو انتہائی خوبصورت اور پراثر انداز میں اجاگر کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
زیرِ نظر مجموعۂ کلام جو مختصر نظموں پر مشتمل ہے‘ اپنے اندر ایسے ہی بے شمار عمومی طور پر نظر انداز کر دیئے گئے واقعات اور مسائل کا خوبصورت بیانیہ لئے ہوئے ہے جو الفاظ کے شاندار چنائو، ترتیب اور حسن کلام سے مزین ہے۔ اور اس پر سند ان نظموں کے جذبات ہیں جو ان کی تفہیم میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ سرخ زمینوں پر سبزہ بکھیرتی نظمیں نوجوان نسل کے لئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں‘‘
شفیق احمد خاں کے دیباچے کا آخری حصہ ملاحظہ ہو:
جہاں تک ان نظموں کے اسلوب اور ڈکشن کا تعلق ہے، یہ ہمارے اس روایتی علامتی استعاراتی نظام سے بالکل مختلف ہے جو اردو شاعری میں مدتوں سے رائج ہے۔ ہماری نظم و غزل علامتوں، صنعتوں، استعاروں سے بھری پڑی ہے۔ شاعر نے روایت سے استفادہ کی بجائے جدید طرزِ اسلوب کو اپنایا ہے اور وہی زبان استعمال کی ہے جو شاید ان موضوعات کی شناخت تھی اور یہی وجہ ان نظموں کے اختصار کا باعث بھی بنی ہے۔ یہ نظمیں نئی لفظیات سے مزین ہونے کے باوجود اپنی جمالیاتی خوبیوں کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔ اس شاعری سے حظ اٹھانے کیلئے ضروری ہے آپ قدیمی تقلیدی اسلوبِ بیان کے حصار سے نکل کر شاعری نگری اور احساساتی کائنات میں خود کو داخل کریں کیونکہ یہ نظمیں صرف معاصر صورتحال کا بیان ہی نہیں بلکہ مستقبل کی شاعری کا تعین بھی کرتی ہیں۔
زاہد مسعود اور شفیق احمد خاں کے بارے دو باتیں بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ زاہد مسعود صاحبِ طرز شاعر، نئی نظم کے نقیب، نقاد اور ناراض نوجوان کی شہرت رکھنے والے ہمارے دوست ڈاکٹر انیس ناگی کے رسالے میں ایک عرصے تک ان کے معاون اور ہم قدم رہے ہیں۔ شفیق احمد خاں کے حوالے سے ایک دلچسپ جملہ جو انہوں نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر اور ظفر اقبال کی شاعری دو ایسے مسائل ہیں جو کافی عرصہ سے حل طلب چلے آ رہے ہیں۔ یہ جملہ ریکارڈ کرنا اس لئے ضروری تھا کہ کہیں ضائع نہ ہو جائے اور اب اس سمارٹ اور خوبصورت مجموعے میں سے چند نظمیں:
نظریاتی قومیں اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتیں
ہم
لے کے رہیں گے
آزادی
اور
کم نہ کریں گے
آبادی
ترقی کے فوائد سب کے لئے نہیں ہوتے
موٹروے سے
نیچے اتریں
پانچ کلو میٹر پہ
وہی پرانے رستے ہیں
فارغ بیٹھے
خاک بسر
چوری کے گنے چوستے لوگ ملیں گے
اور
اجنبیوں پر بھونکتے کتے
کچھ موسم اخبار کی خبروں میں رہتے ہیں
موسم
اپنی شکلیں بدل چکے ہیں
گرمی آتی ہے
اس کے بعد
پھر سردی آتی ہے
خزاں، بہار تو سال میں اب
کئی کئی بار آتی ہیں
مفت چیزوں کی تجارت زیادہ منافع بخش ہے
ہوا تو مفت ہوا کرتی تھی
لیکن اب ٹھنڈی ہوا
اور گرم ہوا کا بل آتا ہے
پانی مفت ملا کرتا تھا
لیکن
گٹروں نے اس کو آلودہ کر رکھا ہے
پینے کے پانی کی بوتل
پچاس روپوں میں ملتی تھی
کچھ بھی مفت نہیں
یاد آیا کہ
مرنا سب سے سستا ہے
لیکن مفت نہیں ہے
آج کا مقطع
جتنا بھی دستیاب تھا‘ کافی تھا وہ‘ ظفرؔ
اب پھر رہے ہیں سارے کے سارے بغیر ہم