جس ٹرین میں شیخ رشید نے سفر کیا ‘ میری مرہون منت ہے: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''جس ٹرین میں شیخ رشید نے سفر کیا وہ میری مرہون منت ہے‘‘ اور اس ٹرین کو جو انجن کھینچ رہا تھا‘ وہ اسی لیے مہنگا خریدا گیا تھا‘ تا کہ شیخ رشید اس میں سفر کر سکیں‘ کیونکہ شیخ رشید کو کھینچنا بڑے دل گردے کا کام ہے اور اس انجن کے دل گردے بھی نئے ڈلوائے گئے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وزن کھینچ سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''ریلوے تباہ ہوا تو قوم معاف نہیں کرے گی‘‘ جبکہ میں اس میں اربوں کا خسارہ ہی لایا تھا‘ اور یہ تباہی سے لاچار ہونے ہی والا تھا کہ ہماری معیاد ہی ختم ہو گئی اور شیخ رشید جیسوں کا وزن کھینچ کھینچ کر اس انجنوں کی معیاد بھی وقت سے پہلے ہی ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ددقومی ادارے منفی سیاست کے اکھاڑے نہیں ہوتے‘‘ جبکہ مہنگے انجنوں کا ذکر منفی سیاست کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اسے اکھاڑہ اس لیے بنایا گیا ہے کہ شیخ رشید اس میں کشتی لڑا کریں۔ اسی لیے میں نے عمران خان سے کہا تھا کہ شیخ رشید کو وزیر ریلوے بنایا جائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں شیخ رشید کے بیان پر پیغام نشر کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی حکومت پانی کا بُلبلہ ہے: عابد شیر علی
حالیہ انتخابات میں شکست کھانے والے ن لیگ کے سابق وزیر پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی حکومت پانی کا بلبلہ ہے‘‘ اور یہ اسی پانی کا بلبلہ ہے ‘جس کا میں وزیر تھا‘ لیکن اس جماعت نے مجھے ہی پانی پانی کر دیا‘ بلکہ پانی میرے سر سے گزرتا رہا اور مجھے پتا ہی نہ چلا۔ انہوں نے کہا کہ ''ن لیگ آج بھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے‘‘ کیونکہ نہ صرف اس کے قائد جیل میں ہیں‘ بلکہ دیگر معززین بھی جلد وہاں پہنچنے والے ہیں ‘جبکہ کسی اور سیاسی جماعت کو یہ شرف اور امتیاز حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ن لیگ کو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت شکست سے دو چار کیا گیا‘‘ حالانکہ اس تکلف کی ضرورت ہی نہیں تھی ‘کیونکہ ہمارے قائد کا بیانیہ بُری طرح سے ناکام ہو گیا تھا اور اب اُن سے کہا جا سکتا ہے کہ : ہور چوپو! آپ اگلے روز عید ملن پارٹی میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان کا مینڈیٹ عوامی نہیں‘ انعامی ہے: آصف شاہین
مسلم لیگ ن شیخوپورہ کے سینئر نائب صدر محمد آصف شاہین نے کہا ہے کہ ''عمران خان کا مینڈیٹ عوامی نہیں‘ انعامی ہے‘‘ کیونکہ کرپشن کے خلاف ان کے مسلسل بیانات اور تحریک نے ووٹرز کو اس قدر گمراہ کر دیا تھا کہ ووٹوں کا زیادہ تر حصہ انہی کو دے دیا‘ جبکہ کچھ ووٹ نون لیگ کو بھی ہمدردی کے ضمن میں دے دیا کہ اس کا قائد جیل میں تھا‘ حالانکہ وہ بھی اتفاق سے کرپشن اور منی لانڈرنگ اور جعلسازی کے الزامات پر سزا یاب ہوا تھا‘ لیکن ہم اخلاقاً اسے انتقامی کارروائی ہی سمجھتے ہیں ؛حالانکہ ان کے سارے بیانات اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں تھے ‘جسے سمجھنے میں غلطی کی گئی ‘جبکہ ایک کے بارے تو کہا جا سکتا ہے کہ ان کی عقل ذرا موٹی ہوتی ہے‘ لیکن افسوس دُبلی پتلی عقل والی دوسری پر ہے‘ جسے ان تعریفی بیانات کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نئی حکومت ایک ہفتہ میں ہی متنازعہ امور میں گھر گئی: رضا ربانی
سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ ''نئی حکومت ایک ہفتہ میں ہی متنازعہ امور میں گھر گئی‘‘ حالانکہ اسے کم از کم دو ہفتے تو غیر متنازعہ رہنا چاہئے تھا‘ اس کے بعد بیشک متنازعہ ہو جاتی‘ جبکہ یہ سارا کچھ زرداری صاحب کو پریشان کرنے کی پاداش میں ہے‘ اس لیے اسے سمجھ لینا چاہئے کہ یہ باتیں اچھی نہیں‘ اگرچہ یہ بات حکومت سے زیادہ نیب کے سمجھنے کی ہے ‘کیونکہ حکومت تو خود نیب زدہ ہے کہ عمران خان سمیت کئی دیگر ذمہ دار بھی نیب کی نظر عنایت سے محروم نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نئی حکومت کی جانب سے بھارت کے ساتھ مذاکرات میں جلد بازی اچھا تاثر پیدا نہیں کرتی‘‘ کیونکہ جلد بازی شیطانی کام ہے اور یہ اسے زیب نہیں دیتا‘ بلکہ ہمارے جیسے رحمانی کام ہی اسے زیب دیتے ہیں اور وہ بھی زیادہ تر دشمن ملک جیسے پہنچے ہوئے بزرگ کی وجہ سے ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
تو یوں ہُوا میں اُس سے کچھ نہ کہہ سکا
اور اس طرح شروع شاعری ہوئی (ادریسؔ بابر)
میں اپنے آپ سے جب صلح کرنے بیٹھتا ہوں
تو کوئی مجھ سے اچانک جھگڑنے لگتا ہے
ابھی میں رات کے دُکھ سے نکل نہیں پاتا
کہ تھوڑی دیر میں دن بھی بچھڑنے لگتا ہے (غضنفر ہاشمی)
بابِ قفس کھلا بھی تو کچھ دیر کے لیے
جو قید میں نہیں تھے پرندے رہا کیے (عمران عامیؔ)
چاہے جتنی دستکیں دیجے مگر کھُلتے نہیں
بعض دروازے کسی پر عمر بھر کھلتے نہیں (پرویز ساحرؔ)
زخم سے زخم تک کی فرصت میں
وقفہ اندمال ہے بانو (خمارؔ میرزادہ)
میں آپ اپنے گلے لگ کے خود سے کہتا رہا
حفیظؔ چل کوئی نہیں‘ اے حبیب چل کوئی نہیں
نظر کو خیر کچھ آنکھوں کا آسرا بھی ہے
مگر خبر کی پریشانیوں کا حل کوئی نہیں (رحمن حفیظ)
خوشی کی بات تھی لیکن مجھے رُلا گئی ہے
کہاں سے بات چلی تھی‘ کہاں تک آ گئی ہے (اعجازؔ حیدر)
آنکھیں بھی ملیں‘ دل بھی‘ طبیعت بھی ملے تو
اک ہاتھ ملانے سے تو ملنے کے نہیں ہم
چھُپ جائیں گے پہلے ہی کہیں بھیس بدل کر
اس بار کہانی سے نکلنے کے نہیں ہم (امرؔ رحمانی)
آج کا مقطع
نکل آئے ظفرؔ‘ دل سے جو باہر
کرائے کو یہ خالی ہو گیا ہے