"ZIC" (space) message & send to 7575

آج کالم کی چھٹی ہے!

میرے نہایت قریبی دوست میاں محمد صدیق کامیانہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، جب ساہیوال سے لاہور ہائیکورٹ آتے ہیں تو اکثر اوقات مجھے ملنا بھی اُن کے شیڈول میں شامل ہوتا ہے۔ اگلے روز تشریف لائے تو حسبِ معمول بہت سی یادوں کو تازہ کیا جن میں سرفہرست ہمارے ہم پیشہ مسعود احمد پوسوال مرحوم تھے جو بلا کے مقرر بھی تھے۔ سیاسی ذہن رکھتے اور ''تجدید عہد‘‘ کے نام سے اپنی ایک تحریک کی وجہ سے بھی جانے جاتے تھے۔ گڑ بڑ کے دنوں میں نوابزادہ نصر اللہ خاں نے انہیں اپنا پیغام دے کر مشرقی پاکستان بھیجا۔ اُن کی جواں مرگی کا زخم ان کے دوستوں کے دل و دماغ میں آج بھی تازہ ہے۔ بیمار پڑ گئے تو انہیں لاہور کے ایک بڑے ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے تشخص ہوئی کہ وہ بلڈ کینسر میں مبتلا ہیں جو آخری درجے پر پہنچ چکا ہے۔ دوستوں نے کہا کہ وہ اُنہیں بغرضِ علاج لندن بھیجنے پر بھی تیار ہیں لیکن ڈاکٹروں نے کہا کہ مرض اپنا کام کر چکا ہے۔ وہ کہیں بھی جانے کے قابل نہیں۔ انہیں لندن بھیجا بھی گیا تو وہ راستے ہی میں گزر جائیں گے۔ چنانچہ وہی ہوا اور دو دن بعد وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے؎ خوش درخشید ولے شعلہء مستعجل بود
باتوں باتوں میں کرتارپور راہداری سے ہوتے ہوئے بابا جی گورو نانک کا ذکرِ خیر آیا تو انہوں نے یہ دلچسپ واقعہ بھی بیان کیا جو اُن کے انتقال کے حوالے سے ہے۔ بابا جی ٹھیک ٹھاک زمیندار بھی تھے۔ ابھی حال ہی میں ان کی 30ایکڑ اراضی کے بارے میں سکھ کمیونٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اُن کی زمین پر کوئی تعمیرات وغیرہ نہ کی جائیں ‘جسے حکومت نے تسلیم کر لیا۔ بابا جی کی رُوح جب قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی تو ایک بڑا جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ سکھ برادری اپنی روایات کے مطابق اُن کے جسد خاکی کو نذرِ آتش کرنا چاہتی تھی جبکہ مسلمانوں کا اصرار تھا کہ چونکہ وہ سکھ کم اور مسلمان زیادہ تھے، اس لیے وہ اُنہیں دفن کریں گے۔ تنازعہ جب بڑھنے لگا تو یہ طے ہوا کہ اس کا فیصلہ ایک دن بعد ایک بڑے جرگے کے ذریعے کیا جائے گا۔ ایک نہری پٹواری کو اس تنازع کا پتا چلا تو وہ ان کی نعش کو رات کی تاریکی میں اُٹھا کر لے گیا اور قریبی دریا میں بہا دیا۔ صبح لوگوں نے دیکھا کہ چار پائی پر بابا جی کی نعش کے بجائے وہ چادر پڑی تھی جس میں اُنہیں ڈھک کر رکھا گیا تھا۔ سب نے خیال کیا کہ بابا جی اس جھگڑے کی وجہ سے خود ہی غائب ہو گئے ہیں؛ چنانچہ اُس چادر کے دو ٹکڑے کیے گئے۔ ایک ٹکڑا نذرِ آتش کر دیا گیا اور وہاں ایک سمادھی قائم کر دی گئی جہاں سکھ حضرات آ کر ماتھا ٹیکتے ہیں جبکہ دوسرا ٹکڑا مسلمان نے دفن کر کے اُس پر قبر بنا دی جہاں وہ جا کر فاتحہ خوانی کرتے ہیں (واللہ اعلم بالصواب)
برادرم اقتدار جاوید نے بتایا ہے کہ یونیورسٹی آف سرگودھا کی اِقرا لیاقت نے ظفر اقبال بطور نثر نگار کے عنوان سے ایم فل کے لیے ایک مقالہ تحریر کیا ہے ،جس کے ٹائٹل کا عکس انہوں نے کالم میں شامل کرنے کیلئے بھیجا بھی ہے، سو اُن سے بھی معذرت کی ہے کہ آپ کی خاطر جو اس کا ذکر کردیا ہے، اسی کو کافی سمجھیں۔
اِدھر فارم ہاؤس پر جو تازہ انکشاف مجھ پر ہوا ہے وہ یہ کہ قمریوں کا ایک جوڑا یہاں آم کے پیڑ میں بھی رہائش پذیر ہے۔ یار لوگوں نے جال سے پکڑ پکڑ کر فاختاؤں کا تو بیج ہی مار دیا ہے، ان قمریوں نے بھی یہاں آ کر ایک طرح سے پناہ ہی حاصل کر رکھی ہے۔
ایک سابقہ کالم میں یہ ذکر کرنا بھول گیا تھا کہ انتہائی سردی کی وجہ سے میرا کمرے سے نکلنا بند تھا اور اب نکلا ہوں تو دیکھ کر آنکھیں روشن ہو گئیں کہ باہر چند ماہ پہلے جو پھولوں کے پودے لگائے گئے تھے، اب وہ پوری بہار دے رہے ہیں۔ پیلے‘ نارنجی، سرخ، سفید اور کاسنی رنگ کے پھولوں کے تختے مستطیل، تکونے اور بعض پیڑوں کے گرد لگائے گئے یہ رنگین پیکر ایسے ہیں کہ انہوں نے گویا موسم ہی تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اور انکشاف، ادھر مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کی بلّیاں بھی پائی جاتی ہیں جن میں سے بعض بیحد خوبصورت بھی ہیں۔ لیکن اگلے روز ایک ایسی بلی جو قریب سے گزرتی ہوئی تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ بھی گئی تھی، سیاہ رنگ کی تھی جس کے منہ کے نیچے ایک سفید نشان تھا، سفید مونچھیں اس کے سیاہ رنگ پر بیحد پھب رہی تھیں۔ اس میں خاص بات یہ تھی کہ اس کے رُوئیں چمکدار اور جلد پھسلویںاور بیحد سمارٹ تھی۔ میں نے شیر کی اس خالہ کو سلام بھی کیا۔
اور، اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
وہ ایک بار نہیں ہے، ہزار بار ہے وہ
سو ہم اُسی سے بچھڑ کر اُسی سے ملتے ہیں
ہے مری خانہ خرابی سے یہ رونق معصوم
اب جہاں شہر ہے، ہوتا تھا بیابان مرا
نیند میں گنگنا رہا ہوں میں
خواب کی دُھن بنا رہا ہوں میں
یہ اپنے پھول کھلاتی ہے اپنی مرضی سے
کوئی کرے گا محبت کی باغبانی کیا
ناؤ سی یاد کی کوئی معصوم
رات کو دل سے آن لگتی ہے (اکبر معصوم)
پہلے مجھ کو بھیڑ میں گُم کر دیا گیا
پھر مجھے آواز دی جاتی رہی
کوئی آوارہ گرد ہی ہو گا
جس نے یہ راستہ بنایا ہے
لوگ اس کے سائے میں بیٹھے تھے، اور
زندگی گرتی ہوئی دیوار تھی
عجیب بات ہے کاشف حسین ا س دل میں
کہ دُکھ بھی رہتے ہیں اور چارہ گر بھی رہتا ہے
اس تماشے کو خدا دیکھنے والا ہے بہت
کیا ضرورت ہے کسی اور تماشائی کی (کاشف حسین غائر)
آج کا مقطع
ہنستا رہتا ہوں دوستوں میں ظفرؔ
آہ و زاری بھی ہے بہت مجھ میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں