جھگڑا جب طول پکڑنے لگا تو بیوی بولی''چراغ لے کر بھی ڈھونڈو گے تو میرے جیسی بیوی نہیں ملے گی‘‘''لیکن یہ تمہیں کس نے بتایا کہ میں دوبارہ بھی تمہارے جیسی عورت سے شادی کروں گا‘‘ خاوند بولا۔
حق بات بھی یہی ہے کہ اگر پہلے ہی جیسی خاتون سے شادی کرنی ہو تو بہتر یہی ہے کہ جیسی بھی ہے، پہلی پر ہی قناعت کر لی جائے ۔ بیویوں کی تعداد کے بارے میں ثقہ رائے تو یہ ہے کہ ایک بھی زیادہ ہے ‘البتہ پہلی بیوی ناکارہ ہو جائے تو دوسری کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے، تاہم پہلی بیوی اتنی بھی ناکارہ نہیں ہوتی جتنی بظاہر دکھائی دیتی ہو کیونکہ جہاں تک دکھائی دینے کا تعلق ہے تو دوسرے کی بیوی زیادہ خوبصورت لگتی ہے۔میاں بیوی کھڑے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ساتھ والے فلیٹ پر ایک میاں دفتر جاتے ہوئے اپنی بیوی سے باتیں کر رہا تھا، جس پر بیوی بولی''کیا تم ایسا نہیں کر سکتے؟‘‘''ضرور کر سکتا ہوں‘‘ میاں بولے ''لیکن میرا اُس خاتون کے ساتھ کوئی تعارف ہی نہیں ہے‘‘۔ ٹی وی اور بیوی چونکہ ہم قافیہ ہیں اس لئے زیادہ تر بیویاں بلیک اینڈ وائٹ کی بجائے رنگین ہی نظر آتی ہیں۔
اول تو کوئی شخص بقائمی ہوش و حواس ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری بیوی لانے پر تیار نہیں ہو سکتا بلکہ پہلی بیوی لانے کے نتیجے میں ہی اس کے ہوش و حواس کا قائم رہنا کافی حد تک مشکوک ہو چکا ہوتا ہے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ پہلی کی بجائے صرف دوسری شادی کی جائے تاکہ شوق بھی پورا ہو جائے اور پہلی بیوی سے بھی مستقل طور پر نجات حاصل رہے، اگرچہ پہلی بیوی سے نجات حاصل کرنے کے طریقے اور بھی موجود ہیں مثلاً ایک صاحب قبرستان سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب تین قبروں کے سرہانے افسردہ بیٹھے تھے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ یہ میری تین بیویوں کی قبریں ہیں۔ پھر پوچھا کہ ان کی موت کیسے واقع ہوئی تو ان صاحب نے بتایا کہ پہلی بیوی زہر کھا کر مری تھی۔ ''اور دوسری؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ دوسری بھی زہر کھا کر مری تھی۔اور تیسری؟ پوچھنے پر وہ صاحب بولے''اُس نے زہر کھانے سے انکار کر دیا تھا!‘‘
دوسرے طریقے میں ایک طرح کا وٹہ سٹہ بھی شامل ہے۔ ہماری مراد اس جوانمرد سے ہے جس نے اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا، یہ مراد کوٹ غلام محمدکے ماشکی فقیرا سے ہے جس نے ایک شخص کو بیل کے بدلے اپنی بیوی دے دی۔ تفصیل کے مطابق فقیرا کا بیل مر گیا جس کے باعث اسے لوگوں کے لئے پانی کی فراہمی میں کافی دشواری کا سامنا تھا۔ فقیرا نے ایک دوسرے ماشکی سے بیل اُدھار مانگا جس نے انکار کر دیا۔ بیل خریدنے کے لئے فقیرا کے پاس پیسے نہیں تھے جس نے حال ہی میں دوسری شادی کی تھی۔ دوسرے ماشکی نے بیل کے عوض اس کی پہلی بیوی مانگی۔ فقیرا راضی ہو گیا۔ بہرحال، ضرورت ایجاد کی ماں ہے، جسے بیل کی ضرورت تھی اُسے بیل مل گیا اور جسے بیوی درکار تھی اُسے بیوی، یعنی ایک کے پاس بیل فالتو تھا اور دوسرے کے پاس بیوی۔ بلکہ ہماری ناقص رائے میں تو اگر فقیرا کے پاس ایک ہی بیوی ہوتی تو تب بھی شاید وہ بیل کے بدلے میں بیوی دے کر اپنے آپ سے سرخرو ہو جاتا کیونکہ یہ تو کوئی انصاف نہیں ہے کہ بیوی پرانی بھی ہو جائے اور آدمی اسے اپنے ساتھ نتھی بھی کیے رکھے۔ تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بیل منڈھے چڑھی یا نہیں، یعنی اگر فقیرا کی بیوی کی طرح بیل بھی ناکارہ نکلا، یا دوسرا ماشکی سوچ رہا ہو کہ اس بیوی سے تو بیل ہی بہتر تھا وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر ایسی صورتحال ہو بھی گئی ہو، یعنی بیل اگر ناقص بھی نکلا ہو تو کم از کم فقیرا کو دل بُرا کرنے اور اس سودے پر پشیمان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس ادلا بدلی میں اس کی پہلی بیوی سے جو نجات حاصل ہو گئی ہو تو یہ بھی سراسر منافع ہے، اس میں گھاٹے کا تو سوال پیدا ہوتا ہی نہیں۔ یعنی ؎
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں
بلکہ اک بیل کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں جبکہ بیوی حاصل کرنے کے بعد بھی دوسرا ماشکی ہی خسارے میں رہا ہوگا کیونکہ ایک تو بیوی، اُوپر سے وہ بھی پرانی، کہ اس سے تو پُرانا گُڑ ہی بہتر رہتا ہے کہ نیا نو دن پرانا سو دن کے مصداق دوسرے ماشکی کو یہی پرانی بیوی زیادہ پائیدار لگی ہو۔
ایک ضیافت کے دوران مہمان نے میزبان سے پوچھا۔''وہ جو ٹی وی کے پاس اتنی بدصورت عورت کھڑی ہے وہ کون ہے؟‘‘''میری بیوی ہے‘‘ میزبان نے جواب دیا۔''معاف کیجئے گا‘‘ مہمان نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا، ''مجھ سے غلطی ہو گئی‘‘''آپ سے نہیں‘‘ میزبان بولا۔ ''غلطی تو مجھ سے ہوئی‘‘عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آدمی شادی کرتے وقت تو غلطی کر سکتا ہے، بیوی کی ادلا بدلی کرتے وقت غلطی کا زیادہ احتمال نہیں ہوتا کیونکہ آپ ایک غلطی سے خود نجات حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ خاوند جھنجھلا کر بولا۔''اس گھر میں اب میں رہوں گا یا یہ مرغیاں‘‘ جس پر بیوی بولی۔''آخر اتنی تیز بارش میں آپ کہاں جائیں گے؟‘‘
بیوی وہ نعمت ہے جس کا کُفران کرنے کے لئے آدمی ہر وقت تیار ہوتا ہے۔ اور اگر شادی کرنا غلطی ہے تو ہم غلطی پر غلطی ہی کرتے چلے جاتے ہیں، تاہم اگر بیوی کھو جائے تو اُسے تلاش کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے، جیسا کہ شاپنگ مال پر اتنا رش تھا کہ ایک صاحب کی بیوی بھیڑ میں کہیں گم ہو گئی۔ وہ اُسے ڈھونڈنے کے لئے اِدھر اُدھر دیکھ ہی رہے تھے کہ اُن کی نظر ایک آشنا چہرے پر پڑی تو اس سے پوچھا ''آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘ ۔''یار میری بیوی گُم ہو گئی ہے، اُسے ڈھونڈ رہا ہوں، اور تم؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ''میری بھی بیوی گم ہو گئی ہے اُسے ڈھونڈ رہا ہوں، تمہاری بیوی کا حُلیہ کیا تھا؟‘‘ رنگ کالا ہے، مُنہ پر چیچک کے داغ ہیں اور کافی موٹی بھی ہے، اور تمہاری بیوی؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ''میری بیوی تو دراز قد، رنگ گورا اور نین نقش بہت خوبصورت ہیں‘‘ اس پر دوسرا بولا ''تو میری بیوی پر لعنت بھیجتے ہیں اور دونوں مل کر تمہاری بیوی کو ڈھونڈتے ہیں!‘‘
آج کا مطلع:
دوسرا انتظام تو بتلا
نئے عاشق کا نام تو بتلا