شہر میں پکا سو کی تصویروں کی نمائش لگی ہوئی تھی۔ ایک نیم خواندہ دیہاتی عورت جو شہر میں سودا سلف خریدنے کیلئے آئی ہوئی تھی‘ اسے نمائش کا پتا چلا تو وہ بھی ٹکٹ خرید کر اندر چلی آئی۔ وہ تصویریں دیکھ دیکھ کر حیران اور پریشان ہو رہی تھی کہ اُسے معلوم ہوا کہ خود پکا سو بھی نمائش گاہ میں موجود ہے۔اس نے منتظمین میں سے ایک سے فرمائش کی کہ پکا سو صاحب کو ذرا یہاں بُلا سکتے ہیں؟ پکا سو آیا تو وہ ایک تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ''یہ کس چیز کی تصویر ہے؟‘‘۔''یہ ایک لڑکی کی تصویر ہے‘‘ پکا سو نے جواب دیا۔
اُف اللہ! لڑکی ایسی ہوتی ہے؟ خاتون بولیں۔''میرے خیال میں تو ایسی ہی ہوتی ہے‘‘ پکا سو نے جواب دیا۔''اور یہ تصویر؟‘‘ اُس نے اگلی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔''یہ ایک درخت کی تصویر ہے‘‘ پکا سو نے جواب دیا۔''توبہ توبہ! درخت ایسا ہوتا ہے؟‘‘ خاتون پھر بولیں۔''میری دانست میں تو ایسا ہی ہوتا ہے‘‘ پکا سو نے جواب دیا۔''اور‘ یہ کس چیز کی تصویر ہے؟‘‘ اس نے اگلی تصویر کی طرف انگلی گھماتے ہوئے پوچھا۔''یہ ایک مکان کی تصویر ہے‘‘ پکا سو نے جواب دیا۔''مسٹر پکا سو! اگر آپ کی بینائی اتنی ہی کمزور تھی تو آپ کو تصویریں بنانے کا مشورہ کس حکیم نے دیا تھا؟‘‘ خاتون بولیں۔
ابرار احمد کی بینائی اتنی کمزور تو نہیں‘ جتنی پکا سو کی تھی‘ تاہم اگر وہ کوشش کریں تو پکا سو جتنی ہو بھی سکتی ہے۔ ایبسٹرکٹ آرٹ کی طرح اب یہ ایبسٹریکٹ شاعری کا زمانہ ہے کہ تجرید کے بغیر جدید شاعری کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا‘ جبکہ کئی سال پہلے میر تقی میرؔکہہ گئے ہیں ؎
یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
سو‘ ان نظموں میں تجرید کی مہک جابجا محسوس کی جا سکتی ہے۔ نظم کے بارے میں ایک خوبصورت قول یہ ہے کہ نظم تو بس ہوتی ہے۔ میں نے ایک بار لکھا تھا کہ نظم کبھی ختم نہیں ہوتی۔ آپ اسے جب بھی چاہیں ‘پھر وہیں سے شروع کر سکتے ہیں‘ جہاں یہ ختم کی گئی تھی۔
ہمیشہ کی طرح دلآویز نظموں کا یہ مجموعہ سانجھ لاہور کو‘ جسے شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے‘ ایک خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ انتساب ایک اور عمدہ شاعر محمد خالد کے نام ہے۔ اندرون سرورق مزید ایک اور عمدہ شاعر اقبال فہیم جوزی کا تحریر کردہ ہے؛ اگرچہ اس کتاب کو کسی دیباچے یا ایسی کسی تحریر کی ضرورت نہیںتھی‘ تاہم اس تحریر کا آخری پیرا گراف کچھ اس طرح سے ہے:
''مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جُوں جُوں ادب کی وسعت‘ کائنات کی بسیط تنہائیوں کی طرح پھیلتی چلی جائے گی ‘ابرار احمد کی شاعری کا جادو قارئین کے تخلیقی عمل میں نئے نئے رنگ‘ نئے نئے زاویئے اور نئے نئے گلزار پیدا کرتا چلا جائے گا‘‘۔اس مجموعے میں 72نظمیں ہیں اور میں انہیں ایک ہی ہلے میں پڑھ گیا ہوں۔ اس میں سے آپ کیلئے منتخب نظمیں پیش کرنا چاہتا تھا‘ لیکن ان کا انتخاب نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی نظم دوسری نظم سے کم تر نہیں۔ سو‘ پہلی نظم پیش ہے:
جُوتے بہت کاٹتے ہیں
رات پھر کون تھا ساتھ میرے/ جسے میں بتاتا رہا/ اس جگہ شہر تھا/ اور سیٹی بجاتے ہوئے نوجواں/ اس پہ اُتری ہوئی رات سے/ یُوں گزرتے/ کہ جیسے یہی ہو گزرگاہِ ہستی/ اسی میں کہیں ہو/ سراغِ تمنا/ یہاں موڑ تھا/ جس پہ بس ٹھہرتی/ اور مسافر اندھیرے میں تحلیل ہوتے/ تو ہم چاپ سُن کر/ اُنہیں زندگی سے گزرتے ہوئے دیکھتے/ اپنی نیندوں کی چادر ہٹا کر/ کہیں چاندنی میں نہائے ہوئے/ اُجلے تکیوںکے نیچے/ کسی گیت کے بول تہہ کر کے رکھتے/ کسی خواب کے راستوں میں بھٹکتے ہوئے/ دن کی وادی میں پھر جا نکلتے/ کہ آنکھیں تھیں/ چاہت بھری نیم وا.../ چق سے لگ کر ہمیں دیکھتیں/ ہر طرف سے اُمڈتی ہوئی شام کی اوٹ سے/ کوئی ہم سے یہ کہتا/ کہاں پر بھٹکتے ہو/ کیوں در بدر ہو/ تو ہم اپنے ہاتھوں کا کیچڑ چھپائے ہوئے/ گھر میں/ پرچھائیوںکی طرح سے اُترتے/ کہیں اُونچی نیچی اُکھڑتی‘ اُدھڑتی ہوئی/ شاہ راہوں پہ/ کھائی ہوئی ٹھوکروں کے تسلسل میں/ ہم نے پکارا بہت/ ان سویروں کی مہکار کو/ جن کی شبنم/ ہمارے دلوں میں ہمیشہ سے گرتی رہی/ پھول پھل بھی کھلے/ خوشبوئیں بھی ملیں/ اور تم بھی ملے/ یہیں پر کہیں اک گزرگاہِ صد رنگ تھی/ جس پہ چلتے ہوئے/ اُس کی دہلیز کو جا نکلتے/ اسی شور میں تھا وہ ہوٹل/ جہاں خامشی تھی/ اُداسی تھی/ سگرٹ کی‘ چائے کی مہکار میں/ ''دوستو فسکیوں‘‘ سے ملاقات ہوتی/ یہ وارفتگی تھی کہ دیوانگی/ گھومتے ہی رہے ہیں/ بگولے کی صورت کہیں/ رات دن کے علاقوں میں/ ہم ہوش میں بھی رہے/ ٹھیک سوئے نہیں/ پورے جاگے نہیں/ اس قدر چل کے آئے/ تو پیروں میں جُوتے بہت کاٹتے ہیں/... رات بھرکون تھا ساتھ میرے/ وہ تم تو نہ تھے/ تو پھر کون تھا ساتھ میرے/ جسے میں بتاتا رہا/ اس جگہ شہر تھا۔
تقریباً نصف کے بعد نثری نظمیں شروع ہوتی ہیں ‘جبکہ آخری نظم ''میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں‘‘ جو میری محبوب ترین نظم ہے۔ نظموں کا پہلا مجموعہ''آخری دن سے پہلے‘‘ تھا۔ پس سرورق شاعرکی تصویر ہے اور میرا یہ مختصر خراج کہ ''میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ ابرار احمد ایسی زبردست نظمیں کیسے لکھ لیتا ہے۔ اس کی نظم اپنے سارے حُسن کے ساتھ آپ پر حملہ آور ہوتی ہے اور آپ بچ کر کہیں نہیں جا سکتے‘‘ ادارہ سانجھ اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد کا مستحق ہے۔
آج کا مقطع
سفینہ ٹھہرا ہوا اور منتظر ہے‘ ظفرؔـ
ہوا کا زور‘ مگر بادباں سے آگے ہے