بجٹ ہر صورت منظور کرا لیں گے: وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''ہم بجٹ ہر صورت منظور کرا لیں گے‘‘ کیونکہ اختر مینگل گروپ کی کمی ہم اس طرح پوری کریں گے کہ اُس وقت تک اتنے ہی‘ بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ارکان ِ اسمبلی اپنے کرتوتوں کی بدولت اندر ہو چکے ہوں گے‘ جن کے پروڈکشن جاری کرنے سے سختی سے منع کر دیا گیا ہے‘ جبکہ اپوزیشن کے کچھ ارکان اُس روز پراسرار طور پر غیر حاضر ہو جائیں گے‘ یعنی ایک دروازہ بند ہوتا ہے ‘تو دس کھل جاتے ہیں ‘جبکہ ہم ویسے بھی متوکل آدمی ہیں اور ہر وقت اللہ پر توکل رکھتے ہیں۔ خاص طور پر اُس جیسی غیبی اور نظر نہ آنے والی مدد نے ہمیں اقتدار دلایا ہے‘ اس لیے پریشان ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں‘ جبکہ پریشان ہونے کیلئے کافی اور بھی اسباب اور معاملات موجود ہوں گے‘ جن میں وفاقی کابینہ کے ارکان کی لفظی دھینگا مشتی بطورِ خاص شامل ہے۔ آپ گزشتہ روزکابینہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
یہ نالائق اعظم نہیں‘ فاشسٹ اعظم ہیں‘‘ مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی اور تاحال نواز لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''یہ نالائق اعظم نہیں‘ فاشسٹ وزیراعظم ہیں‘‘ کیونکہ وہ ترقی کر کے نالائق اعظم تو نہیں رہے؛ البتہ فاشسٹ اعظم ہو گئے ہیں ؛چنانچہ دیکھنا یہ ہے کہ وہ فاشسٹ اعظم سے ترقی کر کے اب کیا بنتے ہیں؟ لیکن یاد رکھیں‘ وہ نواز شریف جیسے جمہوریت پسند کبھی نہیں ہو سکتے‘ جو کابینہ کا اجلاس بھی کبھی کبھار ہی بلایا کرتے تھے ‘بلکہ ارکان ِاسمبلی اور وفاقی وزرا تک ملاقات کیلئے چھ چھ ماہ تک انتظار کیا کرتے تھے ۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
ہماری حکومت کا احتساب 5سال بعد کیا جائے: شہزاد اکبر
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ''حکومت کا احتساب 5سال بعد کیا جائے‘‘ کیونکہ اس وقت ہمارا احتساب کرنے والوں کے کشتوں کے پشتے لگ چکے ہوں گے اور دُور دُور تک کوئی احتساب کرنے والا نظر ہی نہیں آئے گا‘ نیز اپوزیشن ہی کا احتساب اس قدر ہو چکا ہوگا کہ مزید کسی احتساب کی گنجائش اور ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی اور مختلف اداروں کے جملہ ارکان بیکار بیٹھے رہنے کی بجائے مستعفی ہو چکے ہوں گے اور کسی میں اتنا دم خم ہی نہیں ہوگا کہ ہمارا احتساب کر سکے‘ جبکہ اس وقت تک کوئی بھی وفاقی وزیر کابینہ کے فیصلوں کا پابند نہیں رہے گا اور ہر وزیر اپنا اختلافی نوٹ لکھ کر ریکارڈ کرواتا رہے گا‘ لہٰذا ہر طرف امن و سکون کا دور دورہ ہوگا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی پروگرام میں شریک ِ گفتگو تھے۔
عمران خان کو آئین کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں: آصفہ بھٹو
سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی آصفہ بھٹو نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو آئین کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں‘‘ اور میرا بیان دینا اس لیے بھی ضروری تھا کہ والد صاحب باپ بیٹا دونوں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ایک طویل عرصہ تک سرکاری مہمان رہیں گے‘ جبکہ بھائی صاحب کا کردار اس میں سب سے زیادہ ہے‘ کیونکہ وہ اس تنظیم کے چیئرمین بھی تھے‘ ویسے بھی چیئرمین کے علاوہ کسی عہدے کو وہ شایانِ شان ہی نہیں سمجھتے‘ لہٰذا اب آپ کو میڈیا میں میرے بیانات ہی نظر آیا کریں گے‘ کیونکہ والد صاحب بھی اشارہ دے چکے ہیں کہ آئندہ میں ہی سیاسی گاڑی کو چلاؤں گی‘ جبکہ پھوپھی جان بھی اُن سب کے ساتھ ہی ہوں گی؛ چنانچہ جو کل بیان دینا ہے ‘وہ میں نے آج ہی تیار کر کے رکھ لیا ہے۔ آپ اسلام آباد میں ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
''خدا مری نظم کیوں پڑھے گا‘‘
یہ ہمارے مرحوم دوست دانیال عزیز کی طویل نظم ہے ‘جسے مہردر انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز کوئٹہ نے شائع کیا ہے۔ انتساب صائمہ‘جذبیہ اور جذلان کے نام ہے۔ پس سرورق شاعر کی کتاب کے حوالے سے اپنی تحریر ہے‘ جس کے مطابق؛ یہ نظم زمیں نژادوں کے دل کی فریاد ہے اور میری آرزوؤں کی منتہا ہے اور میں جانتا ہوں تو صرف اتنا کہ خدا نے میری نظم پڑھ لی ہے‘ کیونکہ مری تقدیر ضرور بدل چکی ہے۔ ساتھ ہی شاعر کی تصویر بھی موجود ہے۔ شروع میں سعید گوہر کا یہ شعر درج ہے : ؎
خدا بھی لفظ تھا لیکن اسے سمجھنے کو
نجانے کتنی کتابوں سے استفادہ ہُوا
منظوم ابتدائیہ بھی شاعر کے اپنے قلم سے ہے۔ بطورِنمونہ‘ اس نظم کا ایک ٹکڑا پیش خدمت ہے:
میں اپنی تخلیق کا شجر ہوں/ شجر‘ جو مجھ سے قدیم تر ہے/ عظیم تر ہے/ یہ وہ نہیں ہے/ بہار کی سبز رو ہوائیں/ خزاں کی بدشکل‘ زرد اور تندخو ہوائیں/ مری ادائیں/ یہ چہچہے/ یہ پرندگاں کے مدھر مدھر گیت/ سب مری گم شدہ صدائیں/ یہ گھونسلے میرے رتجگے ہیں/ یہ ڈال میں ہوں/ یہ سبز پتوں کی شال میں ہوں/ میں خود ہی اپنے لیے ہوں سایا/ میں خود ہی اپنا‘ میں خود پرایا/ نہ میرا ثانی‘ نہ میرا جایا/ میں خود ہی خود ہوں پلٹ سکے کون میری کایا/ میں اپنا آسیب خود ہوں/ خود اپنا خشک و تر ہوں/ میں خود غذا ہوں/ میں خود ثمر ہوں/ یہ شاخ پر جو لہک رہی ہے/ یہ نظم میں ہوں/ جو پتا پتا چہک رہی ہے/ یہ نظم میں ہوں/ مگر یہ دستور ناروا ہے/ جو خود اُگا ہے وہ خود جھڑے گا/ خدا مری نظم کیوں پڑھے گا۔
اگرچہ اب ہمارے ہاں طویل نظم کہنے کا رواج نہیں ہے کہ اب وہ تخلیقی حوصلہ بھی موجود نہیں‘ لیکن یہ نظم پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اگر شاعر میں لمبا تخلیقی سانس کھینچنے کی ہمت اور توفیق موجود ہو تو طویل نظم ضرور لکھی جانی چاہیے کہ ایسی نظمیں بجائے خود طویل نظم لکھنے کی ترغیب بھی ارزانی کرتی ہیں۔
آج کا مقطع
ہے منتظر اک اور زمانہ مرا‘ ظفرؔ
ایک اور ہی طرف کا پکارا ہوا ہوں میں