نواز شریف کیلئے گھر کا کھانا روکنا سیاسی انتقام ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کیلئے گھر کا کھانا روکنا بدترین سیاسی انتقام ہے‘‘ کیونکہ جو کھانے وہ شروع سے کھا رہے ہیں اور جو سب کو اچھی طرح معلوم ہے‘ ان کیلئے وہی پرہیزی کھانے ہیں‘ اس لیے وہ بدپرہیزی کے مرتکب نہیں ہونا چاہتے‘ جبکہ انہوں نے جو خدمت بھی کی ہے‘ وہ بھی سخت پرہیزہی تھی اور ان کا معدہ بھی اسی لکڑ ہضم پتھر ہضم خدمت سے ٹھیک کام کر رہا ہے‘ کیونکہ ان کے دو ہی شوق تھے‘ یعنی خدمت اور کھانا‘ جنہیں وہ خشوع و خضوع سے پورا کرتے تھے۔ اس لیے ان کا کھانا روکنے سے بڑھ کر سنگین جرم اور کوئی نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ خدمت کا سلسلہ بھی اس وقت سے بند ہے‘ جب سے انہیں ایک منصوبے کے تحت اقتدار سے الگ کیا گیا تھا اور اگر‘ ان کا پرہیزی کھانا بھی بند کر دیا جائے تو یہ ان کی صحت کے ساتھ کھیلنے والی بات ہو گی‘ جس کا قابلِ رشک ہونا مخالفین کو ایک آنکھ نہیں بھا تا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم اور وزرا ‘پارلیمنٹ کو بے توقیر کر رہے ہیں: قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر اور مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم اور وزرا‘ پارلیمنٹ کو بے توقیر کر رہے ہیں‘‘ جبکہ ہم نے جو کچھ کیا‘ وہ پارلیمنٹ سے باہر باہر ہی کیا ہے اور اس کام سے فارغ ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں آیا کرتے تھے‘ اس لیے کیا زرداری ہوں یا کیا ان کے وزرائے کرام‘ سب کچھ پارلیمنٹ سے باہر کیا کرتے تھے ‘جس کی وجہ سے وزیراعظم گیلانی ایم بی بی ایس بھی کہلائے؛ اگرچہ زرداری صاحب بھی ایم بی بی ایس سے کچھ کم نہیں تھے‘ جو وہ اپنے برخوردار اور ہمشیرہ صاحبہ کے ساتھ مل کر کرتے رہے ہیں‘ جس کی بناء پر وہ بھی ایم بی بی ایس کہلانے کے بجا طور پر مستحق ہیں ‘لیکن انہوں نے اس ڈگری کا کبھی اعلان نہیں کیا‘ ورنہ قوم کے علاج معالجے میں انہوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ‘بلکہ گیلانی صاحب سے بھی بڑھ چڑھ انہوں نے اس کارِخیر میں حصہ لیا اور نیکی برباد گناہ لازم کے طور پر انہیں اب‘ پریشان کیا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اپنے رسک پر بلانا‘ ایسا نہ ہو کہ میری باتیں سن سکو نہ سہہ سکو: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزایافتہ قیدی نمبر 420 کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''مجھے اپنے رسک پر بلانا‘ ایسا نہ ہو کہ میری باتیں سن سکو نہ سہہ سکو‘‘ اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ توہین ِعدالت کے زمرے میں بھی آئے گا ‘اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں والد صاحب کو جیل سے باہر نکلواتے نکلواتے خود بھی اندر ہو جائوں‘ لیکن اس کا بھی مجھے فائدہ ہی ہو گا کہ مظلوم بن کر لوگوں کی ہمدردیوں کی حقدار ہو جائوں گی‘ جبکہ ویڈیو کے سلسلے میں عزیزم ناصر بٹ کی قربانی ہمیشہ یادگار رہے گی کہ انہوں نے نواز شریف کا حقیقی دوست بن کر دکھا دیا ہے؛ اگرچہ میرے ساتھ ان کے اندر ہونے کے امکانات بھی واضح طور پر نظر آ رہے ہیں اور اسی کا نام ایثار و قربانی بھی ہے۔ آپ اگلے روز حسب ِمعمول ٹویٹر پر اپنی عدالت طلبی پر اظہار ِخیال کر رہی تھیں۔
حکومت کو بیساکھی کا سہارا دے کر کھڑا کیا گیا ہے: جاوید ہاشمی
سینئر اور بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''عمران خان کی حکومت کو بیساکھی کا سہارا دے کر کھڑا کیا گیا ہے‘‘ لیکن یہ ایک عجیب بات ہے کہ یہ بیساکھی کے سہارے کھڑا ہونے کی بجائے چل بھی رہی ہے ‘بلکہ بھاگتی دوڑتی نظر آ رہی ہے‘ جو کہ خود بیساکھی کیلئے بھی نقصان دہ ہے اور امید ہے کہ نواز لیگ‘ وہ جتنی بھی باقی رہ گئی ہے‘ میرے اس بیان کا نوٹس ضرور لے گی؛ اگرچہ اس کے حق میں اب تک میرے سینکڑوں بیانات کا وہ نوٹس لینے سے قاصر چلی آ رہی ہے‘ بلکہ اب تو اسے اپنی پڑی ہوئی ہے اور لوگ اسے چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں ‘جبکہ ایسے حالات میں تو اُسے میرے جیسوں کی زیادہ ضرورت ہے ‘ورنہ میں بھی عمران خان سے ملاقات کر سکتا تھا کہ آخر اس کی جماعت کا صدر رہا ہوں اور اب بھی خدمات سر انجام دینے کو تیار ہوں اور میرے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا ہو چکی ہیں‘ ان کی وضاحت اور تلافی کے لیے بھی تیار ہوں۔ آپ اگلے روز ملتان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
''بنائے حیرت‘‘
''بنائے حیرت‘‘اورنگزیب کا مجموعہ کلام ہے اور اسے گوہر گھر پبلی کیشنز کوئٹہ نے چھاپا ہے۔ انتساب کچھ اس طرح سے ہے: ''وقت کی اُس دھارا کے نام‘ جس نے مجھے وجدان کے کنارے سے بلا انتخاب چنا اور پانی کی تیز لہروں کے حوالے کر دیا کہ اگر بچ جائوں تو دوسرا کنارا الہام ہے۔‘‘ دیباچے فراست رضوی‘ ڈاکٹر طارق ہاشمی اور احمد حسین مجاہد نے لکھے ہیں۔ پس سرورق رائے نصیر ترابی کی ہے اور اندرون سرورق سرور جاوید‘ مقصود وفا‘ ندیم بھابھا اور دلاور علی آزر کی تحسینی رائے درج ہے۔شاعر نے اپنے اشعار میں اپنی حیرت کا ذکر بار بار کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا؛ اگر وہ اپنے کلام سے قاری کو بھی تھوڑا حیران کرتے۔ تعلّی آمیز اشعار بھی وافر تعداد میں موجود ہیں۔ دیباچہ نگاروں نے شاعر کے جو منتخب اشعار پیش کیے ہیں‘ انہیں پڑھ کر مجھے کتاب پڑھنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ زیادہ تر اشعار تازگی اور تاثیر سے محروم ہیں اور موصوف کے اُس وجدان کا بھی کہیں سراغ نہیں ملتا‘ جس کا دعویٰ انہوں نے انتساب میں باندھا ہے۔ مجھے صرف یہ دو شعر دستیاب ہوئے ‘ جو پیش ِ خدمت ہیں:
عجیب دن تھا جو کہتا تھا میرے کانوں میں
میں آج رات سے آگے سفر نہیں کروں گا
آخر بگڑ گئے مرے سب کام ہونے تک
اک عمر لگ گئی مجھے ناکام ہونے تک
آج کا مقطع
دل میں اس کے موم بتی سی جلائی بھی‘ ظفرؔ
روشنی کے باوجود اتنا اندھیرا رہ گیا