بزدل حکمرانوں نے نواز شریف کی بیٹی کو جیل میں ڈال دیا: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''بزدل حکمرانوں نے نواز شریف کی بیٹی کو جیل میں ڈال دیا‘‘ اور اب مزید بزدلی کا ثبوت دیتے ہوئے والد محترم اورپھوپھو کو بھی جیل میں ڈال رکھا ہے‘ بلکہ ان کے عزیزم بلاول کو بھی‘ جو جب تک شادی نہیں ہو جاتی‘نہایت عزیز ہیں ‘ یعنی مجھے بھی جیل بھیجنے کا بزدلانہ ارادہ رکھتے ہیں‘ تاہم یہ بھی مقامِ شکر ہے کہ وہ بزدل ہیں‘ ورنہ اگر دلیر ہوتے تو ویسے ہی ہمارا سیاسی خاتمہ بالخیر کر چکے ہوتے‘ اس لیے ہمیں اُن کی بزدلی پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور یہ بھی دعا ہے کہ وہ کہیں مزید بزدل نہ ہو جائیں‘ ورنہ وہ مزید بزدلانہ کارروائیاں شروع کر دیں گے‘ جبکہ میری تو ابھی شادی بھی ہونی ہے۔ آپ اگلے روز استور میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
حکمرانوں کی نااہلی سے ترقی کا پہیہ اُلٹا گھوم رہا ہے: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کی نااہلی سے ترقی کا پہیہ اُلٹا گھوم رہا ہے‘‘ جسے میں نے سیدھا گھمانے کی کوشش کی ‘لیکن ناکام رہا‘ پھر میں نے لیاقت بلوچ صاحب کو ساتھ لے کر اسے سیدھا گھمانے کی کوشش میں زور لگایا تو ہم دونوں اس کے ساتھ خود اُلٹا گھومنے لگ گئے‘ بالآخر بڑی مشکلوں سے اس سے جان چھڑائی ‘لیکن ہم دونوں کا سر ابھی تک گھوم رہا ہے‘ اسی لیے کہتے ہیں کہ جس مشین کا پتا نہ ہو اس میں ہاتھ نہیں دینا چاہیے‘ اس لیے آئندہ ایسی حرکت سے توبہ تائب ہو گئے ہیں اور صدقہ بھی دیا ہے کہ مزید کوئی نقصان نہ ہو جائے‘ جبکہ مشینیں تو ویسے ہی غیر فطری چیزیں ہیں‘ جس سے انسان محکوم ہو کر رہ گیا ہے۔ ہماری حکومت آئی تو ہم جملہ مشینوں پر ویسے ہی پابندی لگا کر انہیں بند کر دیں گے‘ تاکہ سب کچھ عین فطری انداز میں ہوتا رہے ‘کیونکہ آخر قدرت نے ہمیںہاتھ کس لیے دئیے ہیں؟ آپ اگلے روز اپنے حلقۂ انتخاب میں مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
محمد اظہار الحق
کل صاحب ِ موصوف کا ایک عرصے کے بعد فون آیا تو میں نے خوشی سے آہا کہا‘ لیکن وہ بولے کہ اس بار آپ نے بسم اللہ نہیں کہا‘ جس پر میں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر تلافیٔ مافات کر دی۔ آپ اب تک آسٹریلیا میں رہ رہے ہیں‘ کہہ رہے تھے کہ اس وقت میرے پاس ڈاکٹر سائر علی اور دیگر حکماء بیٹھے ہیں اور ہم آپ کی چاروں طرف والی غزل پر گفتگو کر رہے ہیں‘ جلد ہی لاہور آؤں گا تو حاضری دوں گا۔ آپ نے کچھ عرصہ پہلے فیس بک پر دریافت کیا تھا کہ پاؤں اور گاؤں وغیرہ کس وزن میں آتے ہیں۔ سو عرض یہ ہے کہ پاؤں‘ گاؤں‘ ناؤ اور گھاؤ‘ داؤ وغیرہ سنسکرت کے الفاظ ہیں اور فعلن کی بجائے فعل کے وزن پر باندھے جاتے ہیں۔‘مثلاً :
اسدؔ خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جب اس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے
............
بھاگے تھے ہم بہت سو اُسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پاؤں
بلکہ اس کی املا بھی دیوانِ غالبؔ میں پانوٗ ہے‘ پاؤں نہیں۔
درستی
ہمارے دوست مسعود اشعر نثر کے تو بادشاہ ہیں ہی‘ اپنی طرز میں اشعار کا استعمال بھی بے دریغ کرتے ہیں‘ جو کہ اچھی بات ہے‘ لیکن اکثر اوقات وزن کا خیال نہیں رکھتے۔ اور اگر رکھنا چاہیں بھی تو اوزان سے بے خبر ہونے کی وجہ سے شعر کو بے وزن کر بیٹھتے ہیں ‘جبکہ ہر لکھنے والے سے یہ توقع بھی نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس فن میں جانکاری رکھتا ہو۔ آپ نے اپنے کالم '' آئینہ‘‘ میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے ؎
جھوٹ ہے‘ بکواس ہے‘ لغو ہے کہنا کہ اب
ہم سے یہ رنگِ گلستاں نہیں دیکھا جاتا
اس کا شعر پہلا مصرعہ دو لفظوں کے آگے پیچھے ہونے سے بے وزن ہو گیا ہے‘جبکہ اصل مصرعہ اس طرح ہے ۔ ع
جھوٹ ہے‘ لغو ہے‘ بکواس ہے کہنا کہ یہ اب
و ما توفیقی الا باللہ
اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہم تلفظ کی غلطیاں بھی تھوک کے حساب سے کرتے ہیں‘ مثلاً: بڑے بڑے معتبرین وقت کو وقت‘ رقم کو رقم (جس سے لفظ کے معنی ہی بدل جاتے ہیں) ہضم کو ہضم‘ بلکہ عوام کو کثرت مؤنث بنا کر پیش کیا جاتا ہے‘ بیشک ان میں کم و بیش آدھی خواتین بھی ہوتی ہیں۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہم اس کا کیا حشرکرتے چلے جا رہے ہیں۔ ٹی وی چینلز کی انتظامیہ اس سلسلے میں کچھ کر سکتی ہے!
اب آخر میں حسین مجروح کے چند اشعار دیکھئے:
وہ مرا خواب ِ مسلسل ہے مگر نیند کے بیچ
آنکھ کھل جانے کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے
............
سویا وہ ایک شب جو کھلے آسماں تلے
موسم کی سلطنت میں بغاوت سے ہو گئی
............
جھولا پڑا نہ چھاؤں میں بیٹھا کوئی فقیر
شبنم کا پیٹر شہر میں بے آبرو ہوا
............
وہ قحط ِ مخلصی ہے کہ یاروں کی بزم سے
غیبت نکال دیں تو فقط خامشی بچے
............
لحد کا رزق ہوا تو کھلا یہ دنیا پر
کہ بچ رہا تھا بہت میں زمیں کے اوپر بھی
آج کا مطلع
مرنے والے مر جاتے ہیں
دنیا خالی کر جاتے ہیں