خالص دودھ حاصل کریں!
ہمارے ہاں سے ہر طرح سے خالص دودھ دستیاب ہے۔ اتنا خالص کہ اسے اصلی اور گاڑھا بنانے کے لیے جو اشیا اور ادویات استعمال کی گئی ہیں ‘وہ شرطیہ خالص ہیں ‘کیونکہ ہم ملاوٹ اور جعل سازی میں یقین نہیں رکھتے۔ اس کا رنگ بھی دودھ کی طرح سفید ہے اور جس وقت چاہیں‘ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی علیحدہ علیحدہ کر سکتے ہیں۔ زیادہ مقدار میں حاصل کر کے دودھ کی نہر بھی بہا سکتے ہیں‘ ٹیڑھی کھیر بنانے کے لیے بھی لاجواب ہے۔ آزمائش شرط ہے۔ نہر کے پانی کو اس لئے ترجیح دی جاتی ہے کہ اس میں چھوٹی بڑی مچھلیوں کی بھی ایک قابلِ ذکر مقدار شامل ہوتی ہے ‘جس سے اضافی توانائی حاصل کی جا سکتی ہے اور اس کی دودھیا رنگت آخر تک برقرار رہتی ہے۔ ہمارا خالص دودھ‘ شیر خواروں کے لئے لاجواب ہے۔ اس کے استعمال سے دودھ کے دانت بھی آسانی سے نکل آتے ہیں۔ بازار سے بارعایت دستیاب ہے۔
المشتہر: ملکی وے فیکٹری‘ لالہ موسیٰ
دیسی گھی دستیاب ہے
ہمارے ہاں سے شرطیہ خالص دیسی گھی حاصل کریں ‘جو صرف ٹیڑھی انگلی سے نکلتا ہے‘ اس لئے سیدھی سے نکالنے کی زحمت نہ کریں‘ کسی کے منہ میں گھی شکر ڈالنے کیلئے ساتھ میں شکر کا ایک لفافہ مفت دیا جاتا ہے۔ چاروں انگلیاں گھی میں رکھنے کے شوقین خواتین و حضرات اپنے رسک پر ہی ایسا کر سکتے ہیں‘ کیونکہ اس میں ایسے کیمیکلز استعمال کئے گئے ہیں‘ جو انگلیوں کیلئے کچھ زیادہ صحتمند ثابت نہیں ہوئے‘ نیز یہ کہ اگر چاروں انگلیاں گھی میں رکھنی چاہیں تو سرکڑاہی میں رکھنا پڑتا ہے ‘جس کی ہم سفارش نہیں کرتے‘ بعد میں سر سے چکناہٹ دور کرنے کیلئے ڈیٹرجنٹ کا ایک ڈبہ نصف قیمت پر دستیاب ہے۔ پکوڑوں کے علاوہ لچ تلنے کیلئے بے مثال۔ چپڑی ہوئی اور دو دو کیلئے نہایت کارآمد ہے۔ صحت افزا اتنا کہ اس کے استعمال سے صرف صحت ہی باقی رہ جاتی ہے۔ آزمائش شرط ہے۔کیونکہ آزمائش کے بغیر نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔
المشتہر: خالص گھی فیکٹری‘ صدر بازار جھنگ
لاجواب لسّی
ہمارے ہاں سے ہر طرح کی لسّی سے لطف اندوز ہوں‘ جس میں میٹھی لسّی‘ پھیکی لسّی‘ کڑوی لسّی اور کھٹی لسّی حسب ِ ذائقہ نوش فرمائیں؛ حتیٰ کہ کچی لسّی بھی دستیاب ہے‘ جسے بوقت ضرورت پکایا بھی جا سکتا ہے۔ حسب ِ ضرورت اس میں پانی ملا کر اس کی مقدار حیرت انگیز طور پر بڑھائی بھی جا سکتی ہے‘ یعنی بقول کالم نویس ؎
اتنا پانی ملا کے اُس نے
لسّی کا بنا دیا ہے لسّا
واضح رہے کہ یہ اہلِ پنجاب کا خصوصی اور قومی مشروب ہے‘اسے کھٹی بنانے کیلئے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ بس ‘دو دن اسے استعمال نہ کریں تو حیرت انگیز طور پر خود ہی کھٹی ہو جاتی ہے۔ غرض اللہ میاں کی کیا قدرت بیان کی جائے۔ سرپرستی کر کے شکر گزار ہونے کا موقعہ فراہم کریں‘ پیشگی شکریہ۔
المشتہر: لسّی محل‘ ریلوے روڈ سیالکوٹ
درستی
ذوالفقار چودھری نے گزشتہ روز اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح سے درج کیا ہے‘ جو کہ غلط ہے: ؎
تعلق عاشق و معشوق کا تو لطف رکھتا تھا
مزے اب وہ کہاں باقی رہے میاں بیوی ہو کر
مصرعہ اوّل میں ایک لفظ کے آگے پیچھے ہونے سے مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے۔ اصل مصرعہ یوں ہے:ع
مزے اب وہ کہاں باقی رہے بیوی میاں ہو کر
محترمہ سعدیہ قریشی نے بھی گزشتہ روز اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح سے درج کیا ہے ؎
ندیمؔ یاد کے غم سے بھرا بھرا سا دن
سوائے ہجر میں یوں تھا گھلا ہوا سا دن
اس کے دوسرے مصرعے کا پہلا لفظ ''سوائے‘‘ نہیں ‘بلکہ ''ہوائے‘‘ ہے‘ جو یقینا ٹائپ کی غلطی ہے۔
اور اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
پھینک دے تیشہ اپنا
کوہ کَن!/ پھینک یہ تیشہ اپنا/ سر کو ٹکرا کے بہت دیکھ لیا/ پتھروں سے/ کبھی آنسو نہیں ٹپکا کرتے/ اک جنوں سے/ کبھی نہریں نہیں نکلا کرتیں/ تیرے ہاتھوں میں سکت/ دل میں وہ وحشت نہ رہی/ بیٹھ چشمے کے کنارے پہ/ بہا دے آنسو
بھر لے آنکھوں میں یہ سبزہ/ یہ مہکتا منظر/ آ--- ادھر لوٹ زمینوں کی طرف/ اپنی بستی کو پلٹ/ اپنے مکینوں کی طرف/ اپنے پھولوں کی طرف دیکھ/ انہیں ہاتھ لگا/ اٹھ کے بڑھ اپنوں کی جانب/ جو تری راہ میں تھے/اور غیروں پہ نظر کر اپنی ---
یہ جو رونق ہے‘ لپکتی ہے/ لپٹتی ہے‘ ہر اک دامن سے/ اس کے اندر سے گزر/ خاک اوڑھے ہوئے/ ٹوٹے ہوئے خوابوں سے لدی آنکھوں سے/ اور--- یک رنگ شب و روز میں ٹھہری دنیا/ جتنی بھی ادنیٰ ہے‘ معمولی ہے/ چھوڑ تکرار/ گوارہ کر لے/ جو بھی موجود ہے/ اب ‘اس کا نظارہ کر لے/ اپنی بے سُود محبت سے/ کنارہ کر لے---!
آج کا مقطع
بازارِ بوسہ تیز سے ہے تیز تر ظفرؔ
امّید تو نہیں کہ یہ مہنگائی ختم ہو