عدلیہ کے بڑے فیصلوں سے کٹھ پتلی حکمران پریشان ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عدلیہ کے بڑے فیصلوں سے کٹھ پتلی حکمران پریشان ہیں‘‘ حالانکہ پریشان انہیں میرے مارچوں سے ہونا چاہئے تھا اور کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ان حکمرانوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ پریشان کن باتوں پر ہونا ہے جبکہ اپنے ہی مارچوں اور دھرنوں سے میں خود پریشان ہو گیا ہوں اور پتہ نہیں ابھی اور کتنا پریشان ہونا ہے حتیٰ کہ اس پریشانی میں وزیراعظم کا استعفیٰ بھی ایک قصۂ پارینہ ہو کر رہ گیا ہے اور اس مایوسی سے میرا وزن مزید بڑھنا شروع ہو گیا ہے ‘اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ دونوں بڑی پارٹیاں بھی برف میں لگ گئی ہیں کیونکہ اب اسلام آباد میں بھی برف پڑنا شروع ہو گئی ہے اور شاید مجھے بھی اب برف ہی کا پھٹہ لگانا پڑے کیونکہ اب تو بیکار بیٹھے بیٹھے زندگی سے ہی اوازار ہو گیا ہوں اور اس وقت کو پچھتا رہا ہوں جب یہ کام شروع کیا تھا۔ آپ اگلے روز ڈیرہ غازی خان میں صدر گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن سے گفتگو کر رہے تھے۔
آگ سے کھیلنے والے جل بھی سکتے ہیں: فواد چوہدری
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ''آگ سے کھیلنے والے جل بھی سکتے ہیں‘‘ اور یہ میری اپنی ریسرچ کا نتیجہ ہے جس طرح بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تحقیق کا یہ نتیجہ نکالا کہ بارش ہو تو پانی آتا ہے؛چنانچہ اب میرا اور اس کا ریسرچ کے معاملے میں مقابلہ ہے اور اس قسم کے محیر العقول نتائج سے قوم کو آگاہ کرتے رہیں گے تا کہ خود قوم کو بھی تحقیق و تفتیش کی کچھ عادت پڑ سکے اور اگر حکومت اور اپوزیشن اسی طرح اس کام میں لگی رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ساری قوم ہی محققین پر مشتمل نہ ہو جائے اور اس کے سارے مسئلے ہی حل نہ ہو جائیں کیونکہ ایسا کارنامہ پہلے افراد ہی سر انجام دیا کرتے ہیں اور پھر اُن کی دیکھا دیکھی قوم تحقیق کے معجزے دکھانے لگتی ہے اور اقوام عالم میں ایک انفرادی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور اپنا سر فخر سے سر بلند کرنے میں دیکھتے ہی دیکھتے ظفر یاب ہوتی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نا اہل‘ سلیکٹڈ حکومت چند ماہ کی مہمان ہے: اکرم خان درانی
اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے کہا ہے کہ ''نا اہل‘ سلیکٹڈ حکومت چند ماہ کی مہمان ہے‘‘ اور یہ چند ماہ 44 ماہ بھی ہو سکتے ہیں جب یہ اپنی میعاد پوری کر کے خود ہی چلی جائے گی‘ جبکہ 44 ماہ کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہے‘ کہ زندہ قوموں کی زندگی میں یہ عرصہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور چٹکی بجانے میں گزر جاتا ہے‘ جبکہ اس نے میرے خلاف بھی انتقامی کارروائی شروع کر دی ہے اور منقسم مزاج حکمران اس سے زیادہ عرصہ نہیں نکال سکتے ‘ ایسا لگتا ہے کہ انہیں میری بددعائوں کا اندازہ نہیں ہے‘ اگرچہ میری زبان تو کالی نہیں ہے اور اگر انہوں نے مجھے قید کروا دیا تو یہ اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے مشکلات پیدا کریں گے‘ اور حکمران چاہے سلیکٹڈ ہی کیوں نہ ہوں ایسے کام ہرگز اچھے نہیں لگتے۔ آپ اگلے روز بنوں میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
میں اور میرے امّاں جی
یہ سینئر ادیب ڈاکٹر اے آر خالد کی تصنیف ہے جسے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب انہوں نے اپنے والد صاحب چوہدری سراج الدین احمد (مرحوم و مغفور)کے نام کیا ہے‘ شروع ہی میں جن کی تصویر بھی شائع کی گئی ہے۔ پسِ سرورق ناشر علامہ عبدالستار عاصم کی مصنف کے حوالے سے تعارفی تحریر ہے‘ جس میں ان کی لا تعداد کُتب کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ مصنف کے تعارف کے لیے اس تحریر کی پہلی سطر ہی کافی ہے جس کے مطابق جناب ڈاکٹر اے آر خالد صاحب کا شمار وطنِ عزیز کے اُن سینئر اور مستند دانشوروں میں ہوتا ہے جن کے قلم کی روشنی سے ہمیشہ پاکستان روشن ہوا۔ ماں‘ جس کے قدموں تلے جنت کی بشارت دی گئی ہے‘ اس کتاب کے مطالعہ سے ہر کسی کو اپنی ماں ضرور یاد آتی ہے۔ یہ اپنی اماں کے حوالے سے ڈاکٹر اے آر خالد کی یادداشتیں ہیں ‘جو انہوں نے نہایت دلپذیر انداز میں بیان کی ہیں‘یہ سارا عرصہ ان کی سوانعمری ہی کا ایک حصہ ہے کہ پڑھتے میں سرگزشت بھی لگتی ہے۔ علامہ صاحب اس کی اشاعت پر بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیںع
ایں کار از تو آید و مرداں چُنیں کُنند
اور ، اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
اِس دھوئیں اور دُھول سے کچھ ماورا درکار ہے
سانس لینا ہے مجھے، تھوڑی ہوا درکار ہے
خاک پہنچی ہے وہیں پر تھا جہاں اِس کا خمیر
خلق سے مایوس ہو کر اب خدادرکار ہے
اُس کی تھوڑی مہربانی خوشدلی کے ساتھ ساتھ
یہ الگ درکار ہے اور وہ جدادرکار ہے
ہوں ضرورتمند بھی حد سے زیادہ، کیا کہوں
اور، خبر یہ بھی نہیں ہوتی ہے کیا درکار ہے
روز کے معمول سے تنگ آ چکا ہوں سر بسر
آج تو کوئی نیا ہی سلسلہ درکار ہے
جا بجا کروا چکا بیماریٔ دل کا علاج
کچھ نہیں ہوتا دوا سے، اب دُعا درکار ہے
عمر بھر کی جستجو ہے رائیگاں جاتی ہوئی
جو کہیں ہے ہی نہیں، اُس کا پتا درکار ہے
کامیاب آخر تو ہونا ہے، یہاں میں نے کبھی
جو کہیں پہنچے نہ اُس تک وہ صدا درکار ہے
باندھ کر رختِ سفر بیٹھا ہوں کب سے اے، ظفرؔ
جس پہ گُم ہو جائوں میں وہ راستا درکار ہے
آج کا مطلع:
تجھ سے بیزار بھی ہو سکتا ہوں
کچھ سمجھدار بھی ہو سکتا ہوں