اختر احسن ایک بڑا ادیب تھا۔ وہ ایک سال پہلے مر گیا۔ اس کی موت کی خبر یہاں کے کسی اخبار میں نہیں چھپی‘ کم از کم میری نظر سے نہیں گزری اور جو مجھے ڈاکٹر ناصر عباس نیئر کے ایک مؤقر قومی انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والے ایک مضمون سے ملی۔ ڈاکٹر نیئرکے بقول؛ وہ 28 جنوری 1933ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوا اور گورنمنٹ کالج لاہور جو‘ اب ایک یونیورسٹی ہے‘ سے نفسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد امریکا چلا گیا‘ جہاں اس نے 21دسمبر 2018ء اپنی زندگی کا آخری سانس لی۔اس دروان وہ گاہے بگاہے لاہور میں بھی آتا رہا۔ میں اُن دنوں اُردو سائنس بورڈ میں تھا اور اپنا شعری مجموعہ ''ہے ہنو مان‘‘ ترتیب دے رہا تھا۔ انہی دنوں جب وہ بھارت جانے لگا تو میں نے اس سے کہا کہ وہاں سے میرے لیے ''ہنو مان‘‘ کی تصویر لیتا آئے اور اس کی لائی ہوئی تصویر ہی سے میں نے کتاب کا ٹائٹل بنوایا۔ اس کی خال خال غزلیں یہاں کے رسائل بالخصوص حنیف رامے کے ہفت روزہ ''نصرت‘‘ میں چھپا کرتیں‘ جنہیں وہ زین (ZEN) غزلیں کہا کرتا تھا۔ اس کا ایک شعر مجھے یاد آ رہا ہے ؎
آخر کو نروان ہوا
دوڑ رہی ہے خالی بس
ایک صاحبِ طرز شاعر ہونے کے علاوہ اس نے ڈرامے بھی لکھے۔ اس کا کچھ کلام پنجابی میں بھی موجود ہے۔ اس نے اسی زمانے میں میری شاعری پر ایک مبسوط مضمون بھی لکھا جو امریکا ہی کی ایک ادبی محفل میں پڑھا بھی گیا‘ لیکن بعد میں یہ کہہ کر ضائع کر دیاگیا کہ وہ کچھ اتنا معیاری نہ تھا۔ اُس کا اصل میدان نفسیات ہی رہا۔ اس موضوع پر اس کی کم و بیش 40کتابیں موجود ہیں۔ اس کی طویل نظم '' مین ہنٹ اِن دی ڈیزرٹ‘‘ کے بارے میں ممتاز امریکی ادیب جوزف کیمبل نے کہا تھا کہ تم نے اسے لکھا نہیں‘ یہ تمہیں موصول ہوئی ہے‘ جبکہ ڈاکٹر نیئر کے بقول؛ اگر نفسیات پر نوبیل پرائز کی گنجائش ہوتی تو اس کے لیے بلامبالغہ اختر احسن کو نامزد کیا جاتا۔ اُس کے نزدیک امیج کسی چیز کی نقل نہیں ہوتی‘ نہ ہی یہ کوئی تصویری استعارہ ہے‘ بلکہ یہ ایک شعری استعارہ ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نامکمل معنی کوئی ادھ پکی اور ناقص چیز نہیں ہوتی ‘بلکہ اسے ایک نامعلوم اور غیر مخصوص تحریک کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے‘ جو ایک اعلیٰ درجے کی ثمر آور منزل ہو۔ یہ ابہام ہی کی ایک شکل ہے۔ ہمارے مرحوم دوست مشفق خواجہ نے ساقی فاروقی کی ایک شعری مجموعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس میں شاعر نے اپنے جذبات کا مکمل اظہار کر دیا ہے‘ جس پر میں نے لکھا تھا کہ مکمل اظہار شاعری کیلئے مہلک ہے‘ کیونکہ ایک تو یہ سراسر غیر شعری ہے اور دوسرے مکمل اظہار کے بعد بات ختم ہو جاتی ہے ‘جبکہ نامکمل اظہار ایک تو ہمہ جہت ہوتا ہے اور کثیر المعانی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تازہ کاری بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔ مجھے پورا شعر تو نہیں اپنا ایک مصرعہ یاد آ رہا ہے: ع
بات پوری ہے‘ ادھوری چاہیے اے جانِ جاں
اور‘ ایک یہ شعر بھی : ؎
وہ کسی کے پاس رُکنے اور ٹھہرنے میں کہاں
جو مزا نزدیک سے ہو کر گزر جانے میں ہے
جبکہ مکمل اظہار سے شعر سپاٹ سا بھی ہو کر رہ جاتا ہے اور نامکمل یا نیم معنی شعر آپ کیلئے ممکنات کا ایک ہجوم چھوڑ جاتا ہے‘ تاہم یہ بھی نہ ہو کہ شعر ایک چیستان ہی ہو کر رہ جائے‘ بلکہ اس نامعلوم میں معلوم کیلئے بھی ایک دریچہ کھلا چھوڑ دینا چاہیے ؛حتیٰ کہ میرے نزدیک تو شعر کیلئے مضمون اور موضوع کا ہونا بھی ضروری نہیں؛ بشرطیکہ اس میں لفظی دروبست کی خوبصورتی موجود ہو‘ یعنی بقول استاد غالبؔ : ؎
نہیں گر سرو برگِ ادراک ِ معنی
تماشائے نیرنگ ِصورت سلامت
پھر یہ کہ شعر لطف اندوز ہونے کیلئے ہوتا ہے‘ سمجھنے کیلئے نہیں۔ آخر زندگی اور زمانے کی کتنی باتیں ہیں‘ جو ہماری سمجھ میں آتی ہیں‘ جو بات سمجھ میں نہیں آتی‘ اُس کا مزہ لینا چاہیے! ایک اور شعر یاد آ رہا ہے: ؎
یہ ابھی تو میری سمجھ میں بھی نہیں آ رہی
میں جبھی تو بات کو مختصر نہیں کر رہا
آخر میں لگے ہاتھوں میری ایک تازہ غزل بھی سُن لیجیے‘ جو میں اختر احسن مرحوم کے نام کرتا ہوں:
بے حالتی سی ہے کوئی حالت کے ساتھ ساتھ
نفرت بھی چل رہی ہے محبت کے ساتھ ساتھ
بھولے ہوئے کو یاد کیا اور اس طرح
مصروفیت بھی تھی کوئی فرصت کے ساتھ ساتھ
کل چاہیے تھا جو وہ نہیں چاہیے ہے آج
رد و بدل ہوا ہے ضرورت کے ساتھ ساتھ
کس کس کے آڑے آئیے‘ کس کس کو روکیے
فتنے کچھ اور بھی ہیں قیامت کے ساتھ ساتھ
بازارِ آرزو میں وہ تیزی تھی اس دفعہ
ہم رائیگاں بھی ہو گئے قیمت کے ساتھ ساتھ
ناکامیوں کے بعد یہ ہم پر کھلا ہے ‘اب
درکار تھا کچھ اور شرافت کے ساتھ ساتھ
پوری کسی طرح سے یہ کرنا تو ہیں‘ اگر
فرمائشوں کا زور ہے غربت کے ساتھ ساتھ
تنہا نہیں تھے کوچۂ رُسوائی میں ظفرؔ
ایسے ہی تھے کچھ اور بھی حضرت کے ساتھ ساتھ
آج کا مطلع
کس جنگل میں کھوئے
اوئے ہوئے ہوئے